تعویذ ذریعۂ دفاع و تحفّظ
تحریر: ابوالحسنات قاسمی تعویذ ذریعۂ دفاع و تحفّظ "تعویذ" کا نام سنتے ہی بہت سے روشن خیال افراد (جو کہ در حقیقت بلید الفہم اور کور مغز ہی ہوتے ہیں) چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں (یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ تحریر اس طبقہ کے لئے ہے جن کو اعتدال پسند کہا جاتا ہے، افراط و تفریط کے شکار طبقات کا اس سے کوئی سروکار نہیں، ذیل میں مذکور اقتباسات، خیالات اور حوالہ جات سے اشارہ مزید واضح ہو جائے گا) وجہ یہ ہوتی ہے کہ انھیں "تعویذ" و "تمیمہ" میں امتیاز نہیں ہوتا کہ آیا دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟، دونوں میں سے کونسی چیز شرعاً درست، قابلِ استعمال و استفادہ ہے اور کونسی قابلِ رد اور غیر مشروع۔ اور نہ ہی انہیں تعویذ کے معنی ومفہوم سے کما حقہ واقفیت ہوتی ہے۔ عوّذَ، یعوّذُ بابِ تفعیل سے "تعویذ" مصدر ہے جس کے معنی ہیں"پناہ دلانا"۔ اور پناہ چاہنے اور دلانے کے لئے بعض آیات و ادعیۂ ماثورہ ایسی ہیں کہ جن کو لکھ کر دیا جاتا ہے تو اللّٰہ کے فضل اور اس کی شان سے یہ کلماتِ معوذات شیطانی اثرات، شر و فساد اور نظرِ بد کے اثر انداز ہونے سے مانع اور رکاوٹ بن جاتے...