عاشورائے محرم
کتاب و سنت اور تاریخ کے تناظر میں
:ماہ محرم الحرام، قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے۔ اللّٰہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص فضیلت و اہمیت بیان کر کے اُن کی خاص خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ قرآن حکیم میں
:ارشاد باری تعالیٰ ہے
إِنَّ عِدَّۃ َ الشُّھورِ عِندَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھرًا فِي کِتَابِ اللّہ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْھا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ٭(التوبۃ ٣٦)۔
:اور حدیث شریف میں ہے
وعَنْ أَبِي بََکرۃَ رَضِيَ اللّٰہ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّمَ: (السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْھَا أَرْبَعَۃ ٌ حُرُمٌ ثَلاثَۃ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو الْقَعْدَۃ وَذُو الْحِجَّۃوَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَینَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ (رواہ البخاري ۲۹۵۸)
"حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللّٰہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللّٰہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام (ادب و احترام کے) ہیں"۔
:خلاصہ
عرب میں قدیم زمانے سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے اشہر حرم (خاص ادب و احترام کے مہینے) ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم، رجب ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعاً بند کردیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لیے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کرسکتے تھے۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ اشہر حرم قرار دیے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا تو "نسیء" کی رسم نکالی۔
یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کردیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کردیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔ اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کرلیتے تھے لیکن ان کی تعیین میں حسب خواہش ردوبدل کرتے رہتے تھے۔
:نسیء قرآن کی روشنی میں
(إِنَّمَا النَّسِيئُ زِیادَۃفِي الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہ الَّذِینَ کَفَرُوا یحِلُّونَہ عَامًا وَیحَرِّمُونَہ عَامًا لِيُلیوا طِئُوا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللّٰہ زیِّنَ لَھُمْ سُوئُ أَعْمَالِھِمْ وَاللّٰہ ُ لَا یھْدِي الْقَوْمَ الْکا فِرِینَ) ( التوبۃ ۳۷)
"نسیء" تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللّٰہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللّٰہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللّٰہ منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا)۔
ابن کثیر کی تحقیق کے موافق نسیء (مہینہ آگے پیچھے کرنے) کی رسم صرف محرم وصفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مذکور ہوئی، امام مغازی محمد ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی قلمس کنانی تھا۔ پھر اس کی اولاد در اولاد یوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے ابو ثمامہ جنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کرلیتے تھے گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفرو گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کہ خدا کے حلال یا حرام کیے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبارو رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لیے نسیء کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور (اِنَّ عِدَّۃ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہ) اس کے رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں جب سے آسمان و زمین پیدا کیے گئے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لیے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے) ہیں جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ ہی ” دینِ حنیف و قیّم "سیدھا دین (ابراہیم علیہ السلام کا) ہے۔
حضرت شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کافروں سے لڑنا ہمیشہ روا ہے (چنانچہ ـ "غزوۂ تبوک" ماہ رجب میں ہوا) اور آپس میں ظلم کرنا ہمیشہ گناہ ہے، اور ان مہینوں میں زیادہ ہی گناہ ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہی ہے لیکن بہتر ہے کے اگر کوئی کافر ان مہینوں کا ادب کرے تو ہم بھی اس سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔
ان خاص مہینوں میں سے سب سے پہلا عزت والا مہینہ محرم الحرام ہے جبکہ باقی رجب المرجب، ذیقعدہ اور ذوالحج ہیں۔ یہ تمام مہینے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ قابل احترام ہیں اسی لیے اسلام (قرآن و حدیث) میں حرمت والے مہینوں میں لڑائی جھگڑے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ انہیں مہینوں میں محفل پر گرما گرم بحثیں و ناراضگیاں چل رہی ہیں۔
ان مہینوں میں جہاں نیکی کا اجر دوگنا ہے وہاں بدی کا بدلہ بھی دوگنا ہے۔ محرم الحرام کے تمام دنوں پر سب سے زیادہ فضیلت یوم عاشورہ کو حاصل ہے۔
:عاشورہ کی وجہ تسمیہ
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لیے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں بعض علماء کا کہنا کہ یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک عنایت خاص فر مائی (کل دس عنایتیں ہوئیں)۔
:یومِ عاشورہ کے عظیم واقعات ایک نظر میں
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل ہے، تاریخ کے عظیم ترین واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں، چناں چہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ:
(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو(مقامِ رفیع) آسمان پر اٹھایا گیا۔
(٤) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو 'خلیل اللّٰہ' بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(٦) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو(رودِ نیل میں غرق ہونے سے تحفظ اور) فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(١٠) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو( چِھنی ہوئی)بادشاہت واپس ملی۔
(١٢) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو ابتلاء (دکھ درد) سے شفا نصیب ہوئی۔
(١٣) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(١٤) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
(١٥) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(١٦) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایا گیا۔
(١٧) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(١٨) اسی دن قریش خانہ ٔ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(١٩) اسی دن حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ ٔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور جگر گوشۂ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
:عاشورہ کا روزہ
عاشورہ محرم کے روزہ کے سلسلے میں مروی روایات کو سامنے رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اپنا معمول اس دن روزہ رکھنے کا تھا لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیا۔ ہجرت کے بعد لوگوں کو تاکید سے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا البتہ جب ماہ رمضان کے روزے فرض کردیئے گئے تب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کاحکم ترک فرما دیا البتہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول اخیر عمر تک یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کا تھا نیز آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی اور اس کا بے پناہ اجروثواب بھی بیان فرمایا چنانچہ اہل علم کی رائے یہی ہے کہ عاشورۂ محرم کا روزہ ابتداء ً (یعنی ہجرت کے بعد) فرض تھا۔ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد صوم عاشورہ کی فرضیت ختم ہوگئی البتہ استحباب و فضیلت برقرار ہے۔
اس دن کے روزے کی بڑی فضیلت ہے۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا، ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مجھے اللّٰہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
إِنَّ عِدَّۃ َ الشُّھورِ عِندَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھرًا فِي کِتَابِ اللّہ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْھا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ٭(التوبۃ ٣٦)۔
:اور حدیث شریف میں ہے
وعَنْ أَبِي بََکرۃَ رَضِيَ اللّٰہ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّمَ: (السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْھَا أَرْبَعَۃ ٌ حُرُمٌ ثَلاثَۃ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو الْقَعْدَۃ وَذُو الْحِجَّۃوَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَینَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ (رواہ البخاري ۲۹۵۸)
"حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللّٰہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللّٰہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام (ادب و احترام کے) ہیں"۔
:خلاصہ
عرب میں قدیم زمانے سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے اشہر حرم (خاص ادب و احترام کے مہینے) ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم، رجب ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعاً بند کردیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لیے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کرسکتے تھے۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ اشہر حرم قرار دیے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا تو "نسیء" کی رسم نکالی۔
یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کردیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کردیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔ اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کرلیتے تھے لیکن ان کی تعیین میں حسب خواہش ردوبدل کرتے رہتے تھے۔
:نسیء قرآن کی روشنی میں
(إِنَّمَا النَّسِيئُ زِیادَۃفِي الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہ الَّذِینَ کَفَرُوا یحِلُّونَہ عَامًا وَیحَرِّمُونَہ عَامًا لِيُلیوا طِئُوا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللّٰہ زیِّنَ لَھُمْ سُوئُ أَعْمَالِھِمْ وَاللّٰہ ُ لَا یھْدِي الْقَوْمَ الْکا فِرِینَ) ( التوبۃ ۳۷)
"نسیء" تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللّٰہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللّٰہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللّٰہ منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا)۔
ابن کثیر کی تحقیق کے موافق نسیء (مہینہ آگے پیچھے کرنے) کی رسم صرف محرم وصفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مذکور ہوئی، امام مغازی محمد ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی قلمس کنانی تھا۔ پھر اس کی اولاد در اولاد یوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے ابو ثمامہ جنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کرلیتے تھے گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفرو گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کہ خدا کے حلال یا حرام کیے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبارو رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لیے نسیء کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور (اِنَّ عِدَّۃ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہ) اس کے رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں جب سے آسمان و زمین پیدا کیے گئے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لیے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے) ہیں جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ ہی ” دینِ حنیف و قیّم "سیدھا دین (ابراہیم علیہ السلام کا) ہے۔
حضرت شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کافروں سے لڑنا ہمیشہ روا ہے (چنانچہ ـ "غزوۂ تبوک" ماہ رجب میں ہوا) اور آپس میں ظلم کرنا ہمیشہ گناہ ہے، اور ان مہینوں میں زیادہ ہی گناہ ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہی ہے لیکن بہتر ہے کے اگر کوئی کافر ان مہینوں کا ادب کرے تو ہم بھی اس سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔
ان خاص مہینوں میں سے سب سے پہلا عزت والا مہینہ محرم الحرام ہے جبکہ باقی رجب المرجب، ذیقعدہ اور ذوالحج ہیں۔ یہ تمام مہینے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ قابل احترام ہیں اسی لیے اسلام (قرآن و حدیث) میں حرمت والے مہینوں میں لڑائی جھگڑے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ انہیں مہینوں میں محفل پر گرما گرم بحثیں و ناراضگیاں چل رہی ہیں۔
ان مہینوں میں جہاں نیکی کا اجر دوگنا ہے وہاں بدی کا بدلہ بھی دوگنا ہے۔ محرم الحرام کے تمام دنوں پر سب سے زیادہ فضیلت یوم عاشورہ کو حاصل ہے۔
:عاشورہ کی وجہ تسمیہ
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لیے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں بعض علماء کا کہنا کہ یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک عنایت خاص فر مائی (کل دس عنایتیں ہوئیں)۔
:یومِ عاشورہ کے عظیم واقعات ایک نظر میں
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل ہے، تاریخ کے عظیم ترین واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں، چناں چہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ:
(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو(مقامِ رفیع) آسمان پر اٹھایا گیا۔
(٤) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو 'خلیل اللّٰہ' بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(٦) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو(رودِ نیل میں غرق ہونے سے تحفظ اور) فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(١٠) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو( چِھنی ہوئی)بادشاہت واپس ملی۔
(١٢) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو ابتلاء (دکھ درد) سے شفا نصیب ہوئی۔
(١٣) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(١٤) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
(١٥) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(١٦) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایا گیا۔
(١٧) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(١٨) اسی دن قریش خانہ ٔ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(١٩) اسی دن حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ ٔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور جگر گوشۂ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
:عاشورہ کا روزہ
عاشورہ محرم کے روزہ کے سلسلے میں مروی روایات کو سامنے رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اپنا معمول اس دن روزہ رکھنے کا تھا لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیا۔ ہجرت کے بعد لوگوں کو تاکید سے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا البتہ جب ماہ رمضان کے روزے فرض کردیئے گئے تب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کاحکم ترک فرما دیا البتہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول اخیر عمر تک یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کا تھا نیز آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی اور اس کا بے پناہ اجروثواب بھی بیان فرمایا چنانچہ اہل علم کی رائے یہی ہے کہ عاشورۂ محرم کا روزہ ابتداء ً (یعنی ہجرت کے بعد) فرض تھا۔ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد صوم عاشورہ کی فرضیت ختم ہوگئی البتہ استحباب و فضیلت برقرار ہے۔
اس دن کے روزے کی بڑی فضیلت ہے۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا، ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مجھے اللّٰہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
(مشکوٰۃ شریف)
نیز دس محرم ہی کے دن اللّٰہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھا، اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے، حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ:ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم (یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
نیز دس محرم ہی کے دن اللّٰہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھا، اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے، حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ:ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم (یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
(صحیحین)
چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ عاشورہ کا روزہ رکھتے، وفات سے پہلے جوعاشورہ کا دن آیا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی،اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا یعنی ۹، محرم یا ۱۱، محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔
حضرت عبداللّٰہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشورہ میں روزے رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللّٰہ ﷺ اس دن تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی، ملی اور مذہبی شعار ہے) تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللّٰہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے۔ عبداللّٰہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
موجودہ زمانہ میں عاشوراء کا روزہ دو یا ایک:
مولانا منظور صاحب نعما نیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں "نویں کو روزہ رکھنے کا آپ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا۔ اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔
آگے لکھتے ہیں کہ: "یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانے میں چونکہ یہود و نصاریٰ و غیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی عمل بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا لہذا فی زمانہ رفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے"۔
چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ عاشورہ کا روزہ رکھتے، وفات سے پہلے جوعاشورہ کا دن آیا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی،اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا یعنی ۹، محرم یا ۱۱، محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔
حضرت عبداللّٰہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشورہ میں روزے رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللّٰہ ﷺ اس دن تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی، ملی اور مذہبی شعار ہے) تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللّٰہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے۔ عبداللّٰہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
موجودہ زمانہ میں عاشوراء کا روزہ دو یا ایک:
مولانا منظور صاحب نعما نیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں "نویں کو روزہ رکھنے کا آپ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا۔ اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔
آگے لکھتے ہیں کہ: "یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانے میں چونکہ یہود و نصاریٰ و غیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی عمل بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا لہذا فی زمانہ رفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے"۔
(واللّٰہ اعلم)
(معارف الحدیث ج ٤؍ ص۱۷۱؍)
یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کی فضیلت اور ترغیب کے سلسلے میں حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے ایک روایت اس طرح مروی یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ سے ایک مرتبہ مختلف نفل روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، انہی میں یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یوم عرفہ کو روزہ رکھنے سے گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہ (یعنی گناہ صغیرہ) معاف کردیئے جائیں"۔ پھر جب آپ ﷺ سے یوم عاشورہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کے عوض بندہ سے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دے"۔
(مسلم وترمذی)
Comments
Post a Comment