قومی ترانہ (راشٹریہ گان)
••ہے اگر قومیّتِ اسلام پابندِ مقام ••
••ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام••
ضلع مہراج گنج کے تحت واقع کولہوئی تھانہ حلقہ کے موضع بڑگوں ٹولہ ، ملنگ ڈیہہ میں واقع"مدرسہ عربیہ انوارِ طیبہ" میں بہترویں یوم آزادی ہند (15/ اگست) کی تقریب کے موقعہ پر مدرسہ کے طلباء کے قومی ترانہ (جن گن من ) نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمانوں اور مدارس پر گھات لگائے بیٹھے شر پسندوں، فسطائی طاقتوں نے مدرسہ کےخلاف محاذ کھولتے ہوئے مدرسہ پر ( دیش دروہ ) ملک مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ کے پاس مدرسہ کی منظوری ختم کرنے کی گہار لگائی ہے ، جس پر ضلع مجسٹریٹ نے اس معاملے کی تحقیقات و تفتیش ضلع اقلیتی افسر پربھات کمار کے سپرد کردی۔
ادھر رجسٹرار مدرسہ بورڈ نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ادارے کی منظوری ختم ہوگی اور جدید کاری اسکیم کے نام پر ملنے والی امداد بھی بند ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ ڈی ایم او نے ڈی ایم کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا کہ ( مدرسہ بورڈ کے قوانین کی مانگ و مطالبات) ضابطہ کے اعتبار سے مدرسہ نہیں ہے اس لئے اس کی منظوری ختم کردی جائے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس راشٹریہ گان ( قومی ترانہ) کے نہ گائے جانے کو لے کر اس قدر ہنگامہ برپا کیا جارہا ہے اس میں راشٹر کے متعلق تعریف و توصیف کے کلمات مذکور ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ انگریزوں کی تعریف و توصیف اور بڑائی کے کلمات ہیں۔ چنانچہ ذیل میں اردو اور ہندی میں قومی ترانہ اور اس کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے ، ادنیٰ درجے کا پڑھا لکھا شخص بھی اس کو پڑھ کر بآسانی نتیجہ برآمد کرسکتا ہے کہ آیا ملک کے بارے میں اس نظم میں کچھ لکھا ہے یا نہیں ۔
حالانکہ مسلمانوں میں سے جو لوگ اس نظم کو پڑھنے سے پرہیز کرتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ اس میں کفریہ یا شرکیہ ( عقائدکو مجروح کرنے والے) الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، جبکہ ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ ذیل میں اس نظم سے متعلق فتوے درج کئے جارہے ہیں ۔
:پہلا فتویٰ
کیا بھارتی قومی گیت مسلمان کو پڑھنے سے گناہ ہوگا؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد نسیم
مقام: سعودی عرب
سوال: نمبر 2439
مذکورہ ترانہ ہندوستان کا قومی گیت ہے۔ اسے پڑھتے وقت دونوں ہاتھ چھوڑ کر سیدھے کھڑے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اس کو پڑھ سکتے ہیں اور کیا اس کو پڑھنا گناہ تو نہیں ہے؟ براہ مہربانی اس کا جواب ارسال فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
:جواب
ہر ملک کا کوئی نہ کوئی ترانہ یا قومی گیت ہوتا ہے، جس میں وہ قوم اپنے وطن سے محبت وعقیدت کا اظہار کرتی ہے اور اس کے حق میں بہتری کی دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی بھارت کا قومی ترانہ ہے، ہمیں تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو غلط ہو، یہ وہاں پر رہنے والے مسلمان ہوں یا غیر مسلم اپنے وطن سے محبت کا اظہار کریں گے، یہ جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
تاریخ اشاعت: 13/3/2013
:دوسرا فتویٰ
سوال : وطن کے کے پرچم کو سلام دینا کیسا ہے؟ نیز جب قومی ترانہ گایا جاتا ہو تو کیا کھڑے ہونا جائز ہے؟
جواب # 21173
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 741=569-4/1431
شریعتِ مطہرہ میں سلام اورجوابِ سلام سے متعلق جو کچھ احکام وہدایات ہیں وہ پرچم کی سلامی پر لاگو نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو ایک قومی مشترکہ عمل کے قبیل سے ہے، اگر قومی ترانہ کا مضمون درست ہو اور اس کے پڑھنے میں قانوناً کھڑا ہونا لازم ہو تو کھڑے ہوکر پڑھنے کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
،دارالافتاء
دارالعلوم دیوبند
:تیسرا فتویٰ
قومی گیت" گانے کا حکم"
سوال:۔(۳۸)قومی گیت یعنی ,,جن گن من ادھینائک جے ہے … الخ،، دوسرا گیت ہے ,, ہے پربھوآنندداتا گیان ہم کو دیجئے …الخ ،،یہ دونوں گیت اگر مسلمان بچے یا کوئی بھی مسلمان پڑھے، تو کیا حکم ہے؟ ایسے اسکول میں جہاں یہ گیت پڑھاجاتا ہو وہاں علم حاصل کرنا کیسا ہے؟بینوا توجروا۔
الجواب:۔حامداومصلیاومسلما ! فتاویٰ محمودیہ میں ہے (۱)کہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب ؒاس گیت کو بہار کے اسکولوں میں پڑھنے سے سختی سے منع فرمایا کرتے تھے،کیونکہ مصلحت اسی میں ہے کہ اس راستہ کو بھی بند کردیا جائے اسے ہرگز نہ کھولاجائے ،کیونکہ تھوڑے کی اجازت سے بات بہت دور تک پہنچے گی ،جس کا نتیجہ بہت خراب نکلے گا ،نیز جن اسکولوں میں
یہ گیت پڑھاجاتا ہو ،ایسے اسکولوں میں تعلیم نہیں دلاناچاہیے ، حدیث شریف میں غیر کے تشبہ سے منع کیاگیاہے ۔ ,, من تشبّہ بقوم فہو منہم ،،۔(۲)واللہ أعلم بالصواب
کتبہٗ:عبداللہ غفرلہٗ ۱۱؍۵؍۱۴۱۸ھ
الجواب صحیح:بندہ محمدحنیف غفرلہٗ ۱۱؍۵؍۱۴۱۸ھ ۔
اس فتویٰ میں بھی قومی ترانے کو پڑھنے سے کسی گناہ کے لازم آنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ کسی مصلحت کے تحت اس کو گانے یا پڑھنے سے باز رکھا گیا ہے۔
اور اس فتویٰ میں جو کہا گیا ہے کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب سختی سے منع کرتے تھے تو وہ ممانعت سوال میں مذکور دوسرے گیت ( ہے پربھوآنند داتا گیان ہم کو دیجئے …الخ ،،) سے متعلق ہے۔ اور اس کو پڑھنے سے تو کوئی بھی صاحب علم منع کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ ( گیان ) علم عطا کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ، "علم " اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے ، جیسا کہ عالم و علیم و علام جیسے الفاظ ذاتِ باری تعالٰی کے لئے مستعمل ہیں ۔
چنانچہ جو علم اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطہ کے عطاء کرتے ہیں اسے علمِ عطائی و لدنی کہا جاتا ہے ، مگر علم اکتسابی بھی بغیر اس کی توفیق کے حاصل نہیں ہوسکتا ۔
بہر کیف ہر مؤمن کامل کا یہی عقیدہ ہے اور ہونا ہی چاہئیے کہ علم اللہ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہیں ، پربھو آنند داتا کی طرف سے علم عطاء نہیں ہوتا ، اور نہ ہی ان کی کوئی حیثیت و حقیقت ہے، وہ تو دیو مالائی و تخیلاتی داستانوں کے کردار رہے ہیں ۔
:بھارت کے قومی ترانہ کی تاریخ
" جن گن من بھارت کا قومی ترانہ ہے، جو بنگالی زبان میں تھا۔ پھر اس کو سنسکرت کا لہجہ دے کر سنوارا گیا۔ اس کے شاعر نوبل لارائٹ رابندرناتھ ٹیگور ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے 1911ء اجلاس میں یہ پہلی دفعہ گائی گئی۔ 24 جنوری، 1950ء کو بھارت کی قانون ساز کمیٹی نے سرکاری طور پر منظوری دی اور یہ نظم، بھارت کا قومی ترانہ ہو گئی"۔
:قومی ترانہ اردو میں
" جنَ گنَ منَ ادھی نایکَ جَیَ ہے
بھارتَ بھاگیہ وِدھاتا
پنجابَ سندھَ گجراتَ مراٹھا
دراوڈَ اُتکلَ وَنگَ
وندھیہ ہماچلَ یمونا گنگا
اُچھلَ جلَدھی ترنگَ
توَ شُبھَ نامے جاگے
توَ شُبھَ آشش ماگے
گاہے توَ جَیَ گاتھا
جنَ گنَ منگلَ دایک جَیَ ہے
بھارتَ بھاگیہ وِدھاتا
جَیَ ہے، جَیَ ہے، جَیَ ہے
جَیَ جَیَ جَیَ جَیَ ہے "۔
:قومی ترانہ ہندی میں
जन गण मन अधिनायक जय हे
भारत भाग्य विधाता
पंजाब सिंध गुजरात मराठा
द्राविड उत्कल वंग
विंध्य हिमाचल यमुना गंगा
उच्छल जलधि तरंग
तव शुभ नामे जागे
तव शुभ आशिष मागे
गाहे तव जयगाथा
जन गण मंगल दायक जय हे
भारत भाग्य विधाता
जय हे, जय हे, जय हे
जय जय जय जय हे!
:ترانہ کا ترجمہ
اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے تیری جئے ہو،
تیرا نام ہی، پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا علاقوں کے دلوں میں جگتا ہے
دراوڈ، اتکل اور بنگال میں بھی
تیرا ہی نام وندھیہ اور ہمالہ کی پہاڑیوں میں گونجتا ہے،
جمنا اور گنگا کے پانی میں یہی رواں دواں ہے،
یہ (مذکورہ) علاقے تیرا ہی نام گنگناتے ہیں،
اور یہ تیری ہی محترم دعائیں مانتے ہیں،
وہ صرف عظیم فتوحات کے نغمے گاتے ہیں،
اور اس عوام کی مغفرت تیرے ہی ہاتھوں ہے،
اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے،
تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو،
جئے ہو، جئے ہو، جئے ہو، تیری ہی جئے ہو!۔
باز آمدم برسرِ موضوع : بایں ہمہ کہ ادراۂ مذکورہ ( مدرسہ انوارِ طیبہ) کے اساتذہ کی لاپرواہی کے باعث مدرسہ میں قومی ترانہ قصداً نہ پڑھا گیا پھر بھی رجسٹرار مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کو اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ادارہ کی منظوری ختم یا دیگر اسکیم کو بند کردیں ۔
ہاں البتہ کسی حد تک یہ تو ممکن ہے کہ جو اساتذہ قومی ترانہ نہ پڑھے جانے پر مصر تھے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود بھی ان پر ملک دشمنی ( دیش دروہ ) کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ۔
اگر یہ عمل ملک دشمنی کے زمرہ میں آتا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے تو پھر مشتے نمونہ از خروارے چند دیش دروہیوں کی ملک مخالف سرگرمیوں کی لنک پیش کی جارہی ہے( حالانکہ برادران ہند کی ملک مخالف سرگرمیوں کی طول ، طویل فہرست ہے ) ، ان لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی، یا کب ہوگی ؟؟۔ جن لوگوں نے آئینِ ہند کو پھاڑنے اور جلانے (لنک پیش ہے : https://youtu.be/58pYBd9T3zs) جیسی قابل مذمت حرکت انجام دی ہے کیا یہ ملک دشمنی نہیں ہے ؟ ، اور چینئی میں ایک شخص نے قومی پرچم کو نذرِ آتش کیا ( https://youtu.be/5DrmdiJYG1k ) ،کیا یہ ملک دشمنی نہیں ہے ؟ ٬ اور کیا ویبھو راوت ، سناتن سنستھا کے رکن کے ذریعہ بم بنایا جانا ( https://youtu.be/yb8TpRWW_k0 ) ملک دشمنی، دیش دروہ نہیں ہے؟۔ اور کیا ملک کی عوام کے ساتھ فراڈ کرنا ( https://youtu.be/lboVJ6cxzdU ) ملک دشمنی (دیش دروہ) نہیں ہے؟ ان دیش دروہیوں کے خلاف قانونی کارروائی و چارہ جوئی کیوں نہیں کی جارہی ہے ؟
Comments
Post a Comment