سچر کمیٹی رپورٹ، پسِ پردہ حقائق

 


ماہِ رواں (اپریل ٢٠١٨)کی٢٠؍ تاریخ کو سابق چیف جسٹس راجیندر سچر کے انتقال کے بعد سے بلا ناغہ میڈیا کے توسط سے ان کے انتقال کو ملک کے لئے خسارہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مسیحا و ہمدرد کے گَنوانے کی سرخیاں نظر نواز ہورہی ہیں، ملک کے لئے تو ایک ایک فرد کا اتلاف بھی بڑے خسارہ کی بات ہے، مگر مسلمانوں کے لئے ان کی مسیحائی ثابت کرنا ایک کارِ عبث اور پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں، مگر کیا کیجیئے اس سماج کا جو کہ سبز باغ دیکھ کر ہی سجدۂ شکر بجا لانے کو نعمتِ عظمیٰ شمار کرتی ہی، اور صرف مسلم سماج ہی نہیں بلکہ دیگر پسماندہ طبقات کا بھی یہی حال ہے کہ دھوکہ اور لالی پاپ ہی اس کا مقدر بن چکا ہے، مثل مشہور ہے ” جیسا روگی بھاوے ویسا بیدھ فرماوے ” چونکہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر پر مشاہدہ ہورہا ہے کہ پسماندہ طبقات بہکاوے کی باتوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اس لئے ہرجگہ،ہر دور کی حکومتوں نے ان کی منشاء کے مطابق ان کو دھوکے دیئے ہیں، اور یہی حال جناب سچر اور ان کی کمیٹی کی رپورٹ کا رہا ہے کہ دونوں کو مسلمانوں کے حق میں مسیحا ثابت کرنے اور نعمت باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جناب سابق چیف جسٹس کے آنجہانی ہونے کو مسلم سماج کے لئے بڑےمسیحا کے کھودینے کا ڈھینڈھورا پیٹا جارہا ہے، جب ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔


کیا ہے حقیقت؟

سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ نے راجندر سچر کمیٹی ۲۰۰۵ء میں قائم کی تاکہ مسلم کمیونٹی کی تازہ ترین سماجی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لے کر حکومت کو باخبر کرے۔ کمیٹی کی سربراہی دلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کو دی گئی اور اس میں چھ اور ارکان بھی شامل تھے۔کمیٹی نے ۲۰۳؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی جس میں مسلم سماج کو درپیش مسائل اور عوامی سطح پر ان کی نمائندگی کو اجاگر کیا گیا ہے اور٧٦؍ سفارشات تجویز کی گئی ہیں ۔

عوام میں بڑے طمطراق سے یہ باور کرایا گیا کہ کمیٹی کی اس رپورٹ کو مدنظر رکھ کر ان کے مسائل کا ادراک کیا جائے گا اور جس میدان میں ان کی حالت کمزور ہوگی حکومت اسے بہتر بنانے کی کوشش کرے گی ۔حالانکہ اس کمیٹی (اس کے علاوہ بھی اس نوعیت کی دوسری کمیٹیوں)کی تشکیل کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلم سماج کی طاقت و قوت کا اندازہ لگایا جاسکے کہ ابھی اس قوم میں کس قدر جان، سکت اور بل باقی ہے؟ اور کن کن میدانوں میں یہ سماج اپنی توانائی کا مظاہرہ کر رہا ہے (حالانکہ مسلمانوں نے ہمیشہ ہی ملک کو ترقی دینے کی ہی کوشش کی ہے معاشیات و اقتصادیات کے ذریعہ ہو یا تعلیمات و مالیات کے ذریعہ) اور وہ کیا قواعد و ضوابط اپنائے جائیں جس سے مسلم سماج کی باقی ماندہ کس و بل کو نکال کر(پوری طرح ان کا بیڑا غرق کرکے) ان کو مزید پسماندگی کے قعرِ مذلت میں ڈھکیلا جاسکے ۔


*ان مسائل میں ہے کچھ ژرف گاہی درکار *

    *یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں*


اس لئے کہ اگر حکومت کی نیت مسلم سماج کے تعلق سے صاف ہوتی تو کمیٹی کے ذریعہ سپرد کی گئی رپورٹ میں درج شدہ و اجاگر کردہ حالت کو درست کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جاتے اور تجاویز کو نافذ کیا جاتا، حالانکہ یو پی اے حکومت جو دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس نے کمیٹی کی پیش کردہ ٧٦؍ میں سے ۷۳؍ سفارشات کو نافذ کردیا ہے، جبکہ ایک جائزہ کے مطابق ٤٥؍ سفارشات کا نفاذ ہوا ہے وہ بھی صرف کاغذات کی حد تک، زمینی سطح پر دور دور تک اس کا نفاذ ہے ہی نہیں ۔


راقم السطور کو (یو پی اے) حکومت کی نیّت اور نیٖتی میں شک نہیں ہے اس لئے کہ علماء و مسلم زعماء نے اس پارٹی کی آبیاری کی ہے (مگر اس پر کیونکر یقین نہ کیا جائے کہ کانگریس کے اندر سنگھی ذہنیت کے حاملین نے پارٹی کو یرغمال بناکر اپنی منمانی چلائی،جیساکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں فسادات، بابری مسجد کے تالا کھلوانے سے لے کر اس کے انہدام اور رام مندر سنگ بنیاد تک کارناموں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے)


بہر کیف: کمیٹی نے مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ تعلیمی رجحان کا فقدان کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ جس دوران (۲۰۰۵ء تا ۲۰۱۳ء) رپورٹ پیش کی گئی اس وقت مسلم سماج کے درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں سپوت آئی اے ایس، ڈاکٹریٹ، انجینئرنگ، اکاؤنٹنٹ اور بھی دیگر تعلیمی اسناد حاصل کئے ہوئے حکومتی اداروں میں سلیکشن کے منتظر و متمنی تھے (اور رپورٹ کے تناظر میں تعلیمی میدان میں محنت کشی اور خود احتسابی میں بھی مصروف ہوگئے) مگر چونکہ حکومت کی نیت مسلم سماج کے تعلق سے ہمیشہ سے پرفریب و مخدوش ہی تھی اس لئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلم سماج تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے تاکہ حکومت میں ملازمت سے ان کو دور رکھا جاسکے (مزید برآں: جو رپورٹ ظاہر کی گئی، حکومت کی سائٹ پر شائع کی گئی، اخبارات کی زینت بنی اس میں تو تعلیمی پسماندگی کو اجاگر کیا گیا، اور جس پر عمل درآمد کرنا تھا یعنی اندرونی و خفیہ رپورٹ اس میں گریجویٹ اور ہائی کوالیفائی مسلم نوجوانوں کی فہرست تیار کرکے مختلف طرح کے بے بنیاد الزامات لگاکر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور کچھ کی ٹارگٹ کیلنگ کی گئی تاکہ بمصداق "نہ رہے بانس نہ بجے بانسری" ایک جانب تو حکومت مسلمانوں کو ملازمت دینے سے بچ گئی، دوسری جانب نہ صرف اسیرانِ بے خطاء ہی دہشت زدہ ہوئے بلکہ پوری قوم ہی خوف و دہشت کا شکار ہوگئی)۔ یہ ہے سچر کمیٹی (اور دیگر کمیٹیوں) کی حقیقت۔

Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج