تعویذ ذریعۂ دفاع و تحفّظ

تحریر: ابوالحسنات قاسمی


تعویذ ذریعۂ دفاع و تحفّظ

"تعویذ" کا نام سنتے ہی بہت سے روشن خیال افراد (جو کہ در حقیقت بلید الفہم اور کور مغز ہی ہوتے ہیں) چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں (یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ تحریر اس طبقہ کے لئے ہے جن کو اعتدال پسند کہا جاتا ہے، افراط و تفریط کے شکار طبقات کا اس سے کوئی سروکار نہیں، ذیل میں مذکور اقتباسات، خیالات اور حوالہ جات سے اشارہ مزید واضح ہو جائے گا)
وجہ یہ ہوتی ہے کہ انھیں "تعویذ" و "تمیمہ" میں امتیاز نہیں ہوتا کہ آیا دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟، دونوں میں سے کونسی چیز شرعاً درست، قابلِ استعمال و استفادہ ہے اور کونسی قابلِ رد اور غیر مشروع۔ اور نہ ہی انہیں تعویذ کے معنی ومفہوم سے کما حقہ واقفیت ہوتی ہے۔

عوّذَ، یعوّذُ بابِ تفعیل سے "تعویذ" مصدر ہے جس کے معنی ہیں"پناہ دلانا"۔
اور پناہ چاہنے اور دلانے کے لئے بعض آیات و ادعیۂ ماثورہ ایسی ہیں کہ جن کو لکھ کر دیا جاتا ہے تو اللّٰہ کے فضل اور اس کی شان سے یہ کلماتِ معوذات شیطانی اثرات، شر و فساد اور نظرِ بد کے اثر انداز ہونے سے مانع اور رکاوٹ بن جاتے ہیں، اور اگر اثر ہوچکا ہوتا ہے تو وہ زائل ہوجاتے ہیں۔
تعویذ سے مراد دراصل وہ کلمات ہیں جن کے ذریعہ پناہ چاہی جائے خواہ وہ تلاوت و قرأت (رقیہ) کے ذریعہ ہو یا تحریر (تعویذ) کے ذریعہ۔

حدیث شریف میں ہے کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان پر شیاطین حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے چیختے، چلّاتے اور تڑپتے ہیں (صرف حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے مبرّا تھے) جیسا کہ مفسرین نے آیت: ''وإنی أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم''۔ کی تفسیر میں لکھا:
أی عوذتہا باللّٰہ عز وجل من شر الشیطان وعوذت ذریتہا وھو ولدھا عیسی علیہ السلام فاستجاب اللّٰہ لہا ذلک کما قال عبدالرزاق أنبأنا معمر عن الزہری عن ابن المسیب عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ ''ما من مولود یولد إلا مسّہ الشیطان حین یولد فیستہل صارخا من مسّہِ إیاہ إلا مریم وابنہا''۔
اور یہ شیطانی حملے اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ بچے تو درکنار تندرست و توانا شخص بھی تاب نہ لاکر پاگل اور خبط الحواس ہوجاتے ہیں، جیسا کہ آیت: (الذین یأکلون الربا لا یقومون إلا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس) سے واضح ہے۔
اور اس خبط کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شیاطین خون میں ملوث ہوکر اپنے مسموم اثرات و جراثیم کو پورے جسم میں بکھیردیتے ہیں، جیسا کہ صحیح البخاری ومسلم میں ہے:
''عن صفیۃؓ، ان النبی ﷺ قال: إن الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم''۔

بہر کیف جن کلمات کو پڑھ کر تحفظ حاصل کرنا جائز ہے ان کلمات کو لکھ کر بھی تحفظ حاصل کرنا جائز ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب معوذتین نازل ہوئیں تو جو لوگ پڑھ سکتے تھے انھیں پڑھا لیتے اور جو نہیں پڑھ سکتے تھے، ''کنا نکتبھا فی صکۃ و نجعلھا فی أعناقھم '' پارچہ پر لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔

حضرت عمران کی بیوی (امّ مریم ''حنۃ بنت فاقوذ'') نے حضرت مریم علیہا السلام کی ولادت پر شیطانِ مردود کے فتنے اور اثراتِ بد سے حضرت مریم علیہا السلام اور ان کی آئندہ نسل کو اللّٰہ کی پناہ میں دیا تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
(فَلَمَّا وَضَعَتْ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُ أُنْثَیٰ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ولیس الذکر کالانثی وَإِنِّي سمیتہا مریہم وَإِنِّي أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مولد إلا قد عصرہ الشیطان عصرۃ أو عصرتین إلا عیسیٰ ابن مریم، ثم قرأ رسول اللّٰہ ﷺ ''وإنی أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم".
البتہ"تمیمہ" کے ناجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں اس لئے کہ "تمیمہ" میں نہ صرف جادوئی، غیر مفہوم المراد و غیر معنی دار اور مبہم الفاظ استعمال ہوتے ہیں بلکہ اس میں استعانت لغیر اللّٰہ بھی ہوتا ہے، اس کے برعکس " تعویذات" میں استعانت من اللّٰہ کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات و ماثورہ دعائیں پڑھی و لکھی جاتی ہیں۔

اور علامہ انور شاہ بن معظم شاہ الکشمیری رحمہ اللّٰہ (المتوفی: 1353ھ) اپنی تالیف: العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں رقیہ و تعویذ کے جواز و عدمِ جواز پر بہت ہی واضح انداز میں لکھتے ہیں کہ کس بنیاد و مشمولات پر جائزہے اور کس صورت میں ناجائز؟
اور سرِدست ہی حضرت نے اجرت کے معاملہ و مسئلہ کو بھی واضح کردیا، چنانچہ لکھتے ہیں:
باب ما جاء فی کراہیۃ الرقیۃ (3؍314)
الحدیث رقم: 2055
الرقیۃ (أفسون) إن اشتملت علی ما ھو غیر جائز فلا تجوز، وإلا فتجوز کما یدل الباب الآخر أن بعض الرقی جائزۃ۔ (ج 3 ص: 354)
باب ماجاء فی الرقیۃ من العین (3؍315)
الحدیث رقم: 2059
الحمۃ (نیش عقرب) ثم المراد أعم من لدغ العقرب أو الحیۃ۔
قولہ: (العین إلخ) وفي الطب دواؤہ وذکروا إحراق ما یقال لہ في لساننا: (اسپند)، وأنکر بعض الأطباء العین۔
قولہ: (لسبقتہ العین إلخ) لو: في الحدیث امتناعیۃ، ولیس المراد أن الرقیۃ أو العین أو الدعاء یرد القدر بل ھی أیضا من القدر، فإن القدر یحتوی علی کل شيء، وللعین غُسل مذکور في موطأ مالک ترتیب الغسل، وکذلک في حاشیۃ الباب اللاحق، وذکروا سر ذلک الغسل لیوافق الطب، أقول: لو یطلب السر فأقول ما قال بعض الحذاق: إن اللّٰہ وضع دافع السم مع ذلک السمۃ کما قالوا: إن في رأس الحیۃ حبۃ تفید في دفع سمہا، وفي الحدیث: (إن في إحدیٰ جناحي الذباب دواء وفي ثانیہا دواء)، وکذلک قالوا: إن أخبث سموم المعدنیات سم الألماس دفیعۃ معہ یاقوت وکذلک أخبث السموم ھیش (بہنک) ومعہ رفیقۃ جدوار (ناربسي)۔ج3ص355،

باب ما جاء في أخذ الأجر علی التعویذ (3؍316)۔ الحدیث رقم: 2063
لا یجوز أخذ الأجرۃ علی تعلیم القرآن عند أبي حنیفۃ، وجوزہ المشائخ وبعض التفصیل مر سابقاً، وتجوز الأجرۃ علی التعویذ کما صرح بہ الشیخ فی عمدۃ القاري وقال الشاہ عبد العزیز فيجوز ۔ (3ص356)
تفسیرہ تحت آیۃ: (وَلا تَشْتَرُوا بآیاتی ثَمَناً قَلِیلاً) البقرۃ: 41

ما حاصلہ: إنہ إذا کان ختم البخاري أو القرآن العزیز لحاجۃ دنیویۃ تجوز الأجرۃ، وإذا کان لأمر دنیوی وقید المکان والزمان تجوز الأجرۃ، وقال ابن عابدین في شفاء العلیل: إن الأجرۃ حرام إذا کان لإیصال الثواب وأتی بالنقول الکثیرۃ، وقال بعض جاہلی العصر: إن عدم الجواز إنما إذا کانت الأجرۃ أقل من أربعین درہماً وأحالہ إلی المبسوط والحال أنہ لا لفظ في المبسوط، وإن ھو إلا کذاب مفتر. (ج3ص357)

اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ماہنامہ "محدثِ عصر" کے جنوری، فروری 2013 کے شمارہ میں بعنوان "جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت" رقمطراز ہیں، کیا خوب تحریر ہے۔
پڑھئے اور سردھنئے:
"کس قدر عجیب وغریب ہوگا یہ جائزہ بلکہ یہ کہئے کہ بصائر و عبر کا ایک بھیانک مرقع کہ ہماری اس وسیع و عریض کائنات میں سلسلہ کس چیز کا سب سے زیادہ طویل ہے۔ انسان نے سمندر کی تہہ میں اتر کر نئے عجائبات کی دریافت میں کیا گل کھلائے، صحراء قمر پر قدم رکھ کرکس نئی دنیا، نئے عالمِ ادراک نئی کائنات سے آشنا ہوا۔ مریخ اپنے نشیب و فراز میں کیا کچھ لیے بیٹھا ہے اور زہرہ کے مرمریں سینے میں دولتوں کا کون سا خزانہ مستور و پوشیدہ ہے۔ کھوج، دریافت، کاوش، دوڑ دھوپ سبھی کچھ ہو رہا ہے اور سب ہی کچھ ہوتا رہے گا، مگر آج تک اس دریافت کی کسی کونہ سوجھی یہ حقائق کے انکار کا سلسلہ دراز تر ہے یا اقرار کی زنجیریں لمبی چوڑی؟ انسان نے کس کس چیز کا انکار کردیا، خدا کا انکار، اس کی بے پناہ قدرتوں کا انکار، اس کے ساتھ علم کا انکار، رزاقیت کا انکار، خالقیت کا انکار، آسمان کا انکار، نبوت کا انکار، معجزات کا انکار، آسمان سے اتری ہوئی کتابوں کا انکار، حدیث کا انکار، معصوم فرشتوں کے وجود کا انکار، ماوراءِ عالم وماوراءِ حیات ایک نئی زندگی کا ادراک اور نئے عالم کا انکار، قیامت کا انکار، جنت کی خوشگواری اور جہنم کی سوزشوں کا انکار، بلکہ انکار کے منحوس بطن سے لاکھوں نامبارک انکار کی پیدائش۔
پس خوب دیکھ لیا جائے کہ انکار کا سلسلہ ہمالیہ کے لمبے چوڑے سلسلہ سے زیادہ دراز ہے اور اس کی گہرائیاں سمندر سے زیادہ عمیق ہیں تو کیا عجب ہے کہ اگر انکار کی اس عام وباء جس کی لپیٹ میں شرق و غرب، شمال و جنوب آئے ہوئے ہیں یہی انسان ان حقائق کا انکار کر بیٹھے جن کی حقیقت ہدایت کی روشنی سے زیادہ تاباں و تابناک تھی، افسوس تو یہ ہے کہ بوجہلی کا مرقع یہ انسان لہسن پیاز، مرچ ہلدی، گل بنفشہ، گاوزبان، سپستاں اور عناب سب کی تاثیر کو کھلے دل سے قبول کرتا ہے۔ یہ ضرب کے الَم کو بھی محسوس کرتا ہے، اور مفرح القلوب خوشخبری کے اثرات اس کے چہرہ پرگل گوں بن کر جھلکتے ہیں۔ اس کی باصرہ نے آج تک حسین مناظر کے حسن سے گہرے تاثرات کا انکار نہ کیا۔ اس کی شامہ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انکار کی جرات نہ کر سکی۔ ذائقہ ان چٹخاروں کا انکار نہیں کر پاتا جس سے اسکے کام و دہن لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر یہی انسان اگر تسلیم نہیں کرتا تو ان حقائق کو تسلیم نہیں کرتا جو دنیا کی سب سے زیادہ پکّی اور سچّی حقیقتیں تھیں، دلخراش جملوں سے متاثر ہونے والا، خوش کن باتوں سے سرور حاصل کرنے والا، حدیث و قرآن اور اوراد و وظائف کی تاثیر کا صاف انکار کرتا ہے۔ کیا خوب ہے اس کائنات کی یہ منفعل مزاج ہستی۔ اس کا علم، اس کی آگہی، اس کا فلسفہ، اس کی منطق، اس کی دانش، اس کی بینش اگر انکار کرتی ہے تو ان ہی حقیقتوں کا جو زبانِ رسالت سے بیان میں آئیں۔ حالانکہ اس صادقہ لہجہ سے بڑھ کر کوئی سچی اور صادق زبان اس کائنات کو میسر نہیں آئی۔
طبیب کا نسخہ ڈاکٹر کا مجوزہ علاج پیک شدہ دوائیاں سب معتبر و مستند، لیکن طبِ روحانی کا دفترِ گراں مایا ہر حیثیت سے ناقابل اعتبار، پس اقرار و انکار کی اس کشمکش سے دوچار ہونے کے بعد کیا صراط مستقیم یہی ہے کہ انکار کے غوغا میں ایک اور صدا کا اضافہ کر دیا جائے؟ نہیں نہیں بلکہ وہ منہاج جو سلامت روی کا جچا تلا معیار ہے، یہ ہوگا کہ بات کو حقیقت پسندانہ انداز سے جانچا اور پرکھا جائے۔ بھلا تعویذ اور گنڈے ورد و وظیفہ کی ان تاریخیت و تاثیر کا انکار ان پختہ اور پکی روایات کے باجود کس طرح ممکن ہے؟ جس کی اطلاع دیتے ہوئے بخاری و مسلم (رحمہما اللّٰہ) نے سید الکائنات سرکار دوجہاں ﷺ کا معمول یہ بتایا کہ:
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا إشتکی منا إنسان مسحہ بیمینہ ثم قال:
''أذھِبِ الْبَأسَ رَبُّ النَّاسِ، وَاشْفِ أنْتَ الشَّافِيُ، وَلَا شِفَآءَ إلَّا شِفَآؤک، شِفَآءً لَا یُغَادِرُ سُقْماً''۔
ترجمہ: کوئی ہم میں بیمار ہوتا تو آپ مریض پر اپنا دست مبارک پھیرتے اوریہ دعاء فرماتے کہ اے اللّٰہ بیماری کو دور فرما دے، مریض کو شفا ءِ کامل بخش، واقعی شفاء دینے والی تو آپ ہی کی ذات ہے، آپ ہی شفاء بخش ہیں، آپ کی سواکس سے شفاء مل سکتی ہے ایسی شفا دیجئے کی بیماری کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

روایت کی راویہ کوئی اور نہیں نبوت کے گھرانے کی ایک فرد فرید سیدہ عائشہ ہیں۔ عربی اسلوب کے مطابق جو پیرایہ بیان اس عفیفہ و محصنہ نے اختیار کیا ہے اس سے صاف دلالت یہی ہے کہ آنحضور ﷺ کا یہ معمول دائمی تھا۔ یہی وہ "چھوٗ" ہے جس کا انکار منہ بھر بھر کر کیا جاتا ہے"۔

اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے معمولات میں لکھا ہے۔
شب و روز کے معمولات:
''آپ کو اوقات کی پابندی کا خیال بہت زیادہ رہتا، ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔ انتہائی مجبوری کی صورت کے سوا کسی قسم کا کسی کے ساتھ استثناء نہ ہوتا، چنانچہ صبح کی نماز کے بعد آپ اپنے ذاتی مشاغل میں لوگوں سے کنارہ کش ہوکر تصنیف وتالیف میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہتے، ان اوقات میں آپ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ مصروفیت اس وقت تک رہتی کہ آپ کھانا کھا کر قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ جب نماز ظہر پڑھ کر فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ آپ کے پاس آئے ہوئے تمام خطوط پڑھ کر ان کا مناسب جواب خود دیتے یا لکھواتے، ان میں سے خاص خاص لوگوں کو سناتے اور ان سے اس سلسلہ میں گفتگو فرماتے، اور ان کے بعض نکتوں اور لطائف کو لوگوں کو سمجھاتے۔ آپ کی گفتگو لوگوں کے اذہان کی تصریح اور ہمنشینوں کے لئے حصول لذت کا سامان ہوتی، اس انداز سے کہ لوگ اس سے نہ تھکتے، نہ تنگدل ہوتے، اسی وقت میں آپ خواہشمندوں کے لئے "دعائیں اور تعویذ بھی تحریر فرمادیتے"۔

دارالعلوم دیوبند کا موقف و نظریہ بابت تعویذ نویسی کہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ لیجئے دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی لگے ہاتھوں ملاحظہ کرلیجئے۔
ایک استفتاء کا جواب ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔

(بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم)
Fatwa ID: 524۔489/Sn2368/1436۔U
اگر "تعویذ" کو نافع بالذات نہ سمجھا جائے تو ایسا تعویذ جس میں مباح ومسنون ادعیہ، اسمائے الٰہی، آیاتِ قرآنیہ لغتِ مفہومہ میں لکھی ہوئی ہوں لٹکانا گناہ نہیں، بلکہ جائز ہے، حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ سے ''سنن ابوداؤد'' میں مروی ہے کہ وہ اللّٰہ کے رسول ﷺ سے سنی ہوئی ایک دعا کو کسی چیز پر لکھ کر ناسمجھ چھوٹے بچوں کے گلے میں لٹکادیا کرتے تھے۔
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن سول اللّٰہ ﷺ کان یعلمہم من الفزع کلمات: ''أعوذ بکلمات اللہ التامّۃ من غضبہ وشرّ عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون، وکان عبد اللّٰہ بن عمر یعلّمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعْلقہ علیہ (أبوداؤد، رقم: ۳۹۸۳، باب کیف الرقی)
اگر کوئی شخص تعویذ کو (طریقۂ علاج کے بجائے) نافع ومؤثر بالذات سمجھے یا تعویذ شرکیہ یا کفریہ الفاظ پر مشتمل ہو تو اسے لٹکانا قطعا جائز نہیں ہے، آپ نے حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہما کی جو روایت نقل کی ہے اس میں اس طرح کے تعویذ گنڈے وغیرہ سے منع کیا گیا جس میں شرکیہ یا کفریہ چیزیں ہوتی ہیں یا لوگ اسے مؤثر بالذات سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام نے اللّٰہ کے رسول کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم لوگ زمانۂ جاہلیت میں تعویذ گنڈے (رقیہ) کیا کرتے تھے، (اب) آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو اللّٰہ کے رسول نے فرمایا: ''اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک'' یعنی اپنے رقیوں (تعویذ گنڈوں) کو میرے سامنے پیش کریں، رقیہ میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرکیہ کوئی چیز نہ ہو۔ (مسلم، رقم: ۷۲۷۱، باب لا بأس بالرقی الخ)183 (نیز دیکھیں: مرقاۃ: ۷؍۰۸۸۲، بیروت، رد المحتار، ۹؍۳۳۵، زکریا)

انتباہ:
تعویذ نویسی صرف خانہ پُری کا نام نہیں ہے کہ جو چاہے (ایرہ غیرہ) اس میدان میں قدم رکھ دے (حالانکہ فی زمانہ یہی صورتِ حال مشاہد ہوتی ہے) تعویذ نویسی کے لئے عربی زبان دانی شرطِ اول ہے، اس لئے کہ تعویذی رقعہ میں جو دعاء (عزیمت) لکھی جاتی ہے اس کا عربی میں ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس خانہ پُری کی کوئی حیثیث و حقیقت نہیں یہی عزیمت اصل ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ قرآن و حدیث کی فہم کا ہونا لازمی ہے، اس لئے کہ جب ان دونوں پر عبور و کامل دسترس ہوگی جبھی بامعنی عزیمت تحریر ہوسکے گی اور حقیقت تو یہ ہے کہ دعاؤں کا ذخیرۂ اصلی کتاب و سنت ہی ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزید علوم بھی ہیں جو کہ نہ صرف عملیات میں ممد و معاون ہیں بلکہ ان علوم سے بہرہ ور ہوئے بغیر عامل بے بہرہ (ناقص) شمار ہوگا (بلکہ وہ عامل نہیں تعویذ نویس شمار ) وہ علوم یہ ہیں:
(1) علم الاشیاء SCIENCE OF THINGS
(2) علم الاعداد NUMEROLOGY
(3) علم الطب MEDICINE
(4) علم خطوط الکف (دست شناسی) PALMISTRY
(5) علم نفسیات PSYCHOLOGY
(6) علم النجوم ASTROLOGY
(7) خیال خوانی و انتقالِ افکار MESMERISM
HYPNOTICISM,TELEPATHY

باز آمدم بر سرِ مطلب:
اب یہاں ٹھہر کر تعویذ اور (سائنسی آلاتِ تحفظ و دفاع)میں عدمِ فرق کو یا فرقِ خفیف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ دونوں کا مقصد ''دفاع اور تحفظ'' ہوتا ہے، بلکہ سائنسی آلاتِ تحفظ و دفاع کے ذریعے تو صرف خارجی، ظاہری دشمنوں (شياطين من الإنس )کا دفاع وتحفظ ہوتا ہے، جبکہ تعویذ سے تو ظاہری و باطنی اور شیاطین من الجن والانس دونوں کا دفاع اور ان سے تحفظ ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت اور اس کی تفسیر بالحدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ "وکذلک جعلنا لکل نبي عدوا شیاطین الإنس والجن یوحی بعضہم بعضہم إلی بعض زخرف القول غرورا''۔

وفي المسند عن أبي ذر قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ ''نعوذ باللّٰہ من شیاطین الإنس والجن'' فقلت یا رسول اللّٰہ أو للإنس شیاطین؟ قال 'نعم')۔

تعویذ و تعوذ کی تعریف لغت میں دیکھ لیجئے اور(سائنسی آلاتِ دفاع) کی تعریف بھی، ابھی آنِ واحد میں آپ پر یہ عقدہ وا ہوجائے گا کہ تعویذ باعتبار فراہمئ تحفظ و دفاع ان کے بالمقابل فائق ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج