اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
چوں کہ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ( ہونے کی وجہ سے قوانینِ فطرت پر مبنی مکمل نظام حیات اور کائنات میں بسنے والی اقوام کے لئے عمدہ ترین راہنما ) ہے اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا کہ خالق کائنات نے کوئی گوشہ ایسا چھوڑا ہو جس میں انسانوں کی ( چاہے ان کا تعلق کسی بھی قوم و مذہب سے ہو ) ابتلاء و مشکلات کا حل موجود نہ ہو۔ آج امتِ مسلمہ (پورے عالم میں) خصوصاً ہندوستان میں جن حالات سے دوچار و برسرِپیکار ہے یقیناً اس کا علاج بھی قوانینِ الٰہیۃ (قرآن مجید) میں موجود ہے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ امت اس کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو۔ آزمائشوں اورمظالم کا سلسلہ ہر دور میں رہاہے، اور راہِ نجات بھی ملتی رہی ہے، اور مغلوب قومیں غالب ہوئی ہیں جس کو اللّٰہ رب العزت نے شرطِ ایمان پر موقوف کیا ہےـ "وأنتم الأعلون اِن کنتم مؤمنین" (اور تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو)۔ امت کے سبھی افراد نہ سہی اگر اکثر یت ہی اللّٰہ رب العزت پر ایمانِ کامل رکھنے کے ساتھ ہی خیر و شر کو مقدّرات و نوشتۂ الٰہیہ باور کرتے ہوئے ایمان کے تقاضوں پر چلے تو پریشان کن حالات و مشکلات سے نجات کی راہیں وا ہوسکتی ہیں۔ آج امت کی روانگی کی سمت محاسبہ کی متقاضی ہے۔ اب جب یہ بات مسلّم ہے کہ تمام پریشانیوں و مشکلات کا حل قرآن مجید میں موجود ہے توقرآن سے رابطہ و علاقہ اور افہام و تفہیم شرط ہوگئی۔ مگر وائے افسوس! کہ جس امت کے افراد میں ایک شعر تو درکنار ایک مصرعہ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ان سے قرآن فہمی کی توقع رکھنا کارِ عبث ہے۔
چند روز قبل کی بات ہے ایک ہندی اخبار میں یہ خبر باصرہ نواز ہوئی "گورکھپور ٹیلی مواصلات کے جی ایم دفتر کے پاس محمد اکرم کی تولّیت ونگرانی میںدُرگا مورتی بٹھائی گئی تھی" اور اس طرح یکجہتی کا مظاہرہ غیر مسلم قوم کے مذہبی شعار کو اپناکر کیاگیا اور عنوان قائم کیاگیا "مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا"۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جس امت یا قوم کے افراد ایک مصرعہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں جنہیں "مذہب بدلنے اور بیر رکھنے" میں فرق و تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں تو ان سے قرآن مجید سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟۔
حدیث ِ پاک "من تشبّہ بقوم فھو منھم" کے تحت مورتی نشست لگانے (نصب کرانے) والے تمام افراد تو مانند ہنود کے ہوئے اور اللّٰہ رب العزت نے وعدۂ سربلندی کو ایمان سے مشروط کیا ہے اور مورتی نصب کرنے کا کام سراسر ایمان کے منافی اور اللّٰہ رب العزت سے بغاوت کے مترادف ہے اور باغیوں کا جو انجام ہونا چاہئے وہ ہورہا ہے۔
اسی طرح ارشاد باری "ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان" (اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو)کے تحت درگا کی مورتی بٹھانے والوں نے فرمانِ الٰہی سے تجاوز و حکم عدولی کرکے سرکشی کا کام انجام دیا ہے اس لئے انجام کار اس بغاوت و سرکشی کا خمیازہ بھگتنا ہی ہے ۔ لہٰذا اگر منجانب اللّٰہ گرفت و مصیبت آرہی ہے تو اس پر اللہ رب العزت سے قومِ مسلم کی یہ شکایت بالکل بے جا ہے کہ "ان کے ساتھ ظلم ہورہاہے"، مذکورہ بالا دلائل کے تناظر میں "ظلم تو کفار پر ہورہا ہے" اس لئے کہ جس نے حکم ِ الٰہی کی جزئی یا کلّی نافرمانی کی وہ بطاہر کافر (نام نہاد مسلمان )ہے، اور پورے قرآن کی بجائے بعض اجزائے قرآن پر اس کا عقیدہ پایا جارہاہے۔ اور "أفتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض" میں اللہ رب العزت نے یہ واضح کردیاہے کہ اگر کوئی " بعض احکام کو مانے اور بعض کا انکار کرے" (اور یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ایمان کا تجزّیٰ یعنی جزء بناناتو ممکن ہی نہیں) تو اب بعض احکام کا انکار کرنے والا بھی کافرِ مطلق ہی ہوگا، صرف بعض احکام پر ایمان لانے اور نام نہاد مسلمان ہونے سے کچھ بھی ایمان نصیب نہ ہوگا "گر فرقِ مراتب نہ کنی زندیقی"۔
صرف کلمۂ (توحید و شہادت)پڑھ لینا ہی ایمان کے کے لئے کافی نہیں ہے،البتہ کلمہ گو (کواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو) قانوناً تو مسلم ہوجاتا ہے مگر "ادخلوا فی السلم کافۃ" کے دائرے میں نہیں آتا، اس لئے کہ اسلام میں مکمل داخلہ کے لئے شریعتِ غرہ نے جو شرائط عائد کئے ہیں (اقرار باللسان، تصدیق بالجنان، عمل بالارکان)جب تک یہ شرائط مفقود ہوں گی کوئی بھی کلمہ گو مؤمن کامل، مسلمِ کامل نہیں ہوسکتا۔
سورہ الحجرات آیت نمبر ١٤؍ میں اللہ تعالیٰ کا اعلانِ (ضابطۂ)ایمان و اسلام دیکھیں اور دونوں میں واضح فرق کو سمجھیں۔
خود کو زبانی مسلم باور کرانیوالے اپنے آپ کو ایمان "مجمل و ایمان مفصل" کی کسوٹی پر باربار پرکھیں اور دیکھیں کہ کتنے فیصد اس پر اتر رہے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ "اس وقت ایک ارب کلمہ گو افراد میں سے اسلام کے مطلوبہ معیار و کسوٹی پر شاید ہی کوئی ایک فرد کھرا اتر رہاہوگا"۔
*یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا *
*لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں بننا*
تو اب اگر قومِ مسلم پر عذابِ الٰہی، مصائب، مشکلات و آفات کا نزول ہورہاہے تو اسے اللّٰہ تعالیٰ سے یا مسلمانان سے یا حکومت سے یہ شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ "مسلم قوم پر ظلم ہورہاہے " ہاں اگر کامل طورپر مسلم و مؤمن ہوتو اس پر اس کا شکوہ و شکایت بجا ہے۔
بہر حال آج کے اس بحرانی دور اور مشکل حالات میں جولوگ اسلام سے وابستہ ہیں صرف اور صرف احکامِ الٰہیہ پر عمل درآمد اور اللّٰہ رب العزت سے استعانت میں ہی ان کے لئے راہِ نجات ممکن ہے، ورنہ حکومت سے شکوہ تو بالکل ہی بیجا ہے۔ کیونکہ جس طرح کامرانِ عالم کو دنیا میں لمحہ بہ لمحہ وجود پانے والے واقعات و حادثات کا علم ہے اسی طرح دنیاوی حکمرانوں کو بھی (خفیہ ذرائعِ اطّلاعات کے توسّط سے) اپنے اپنے ملک میں ہر ہر پَل انجام پانے والے امور و واقعات کی خبر رہتی ہے۔ بلکہ راقم السطور کو یہ کہنے میں بھی کوئی تأمّل نہیں کہ یہاں ساری تخریبات حکومت کے ایماء و حکم سے انجام پارہی ہیں۔ اور باوجود شواہدِ بسیار کے حقیقی تخریب کاروں پر پابندی یا لگام لگانے یا شکنجہ کسنے کے لئے (سابقہ یا موجودہ، مرکزی و ریاستی) حکومتیں مناسب وقت کے انتظار کا بہانہ بناتی رہی ہیں، باربار حکومتیں (بالخصوص) مرکزی حکومت یہی کہتی رہی کہ ضرورت پڑنے پر "سَنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں" پر پابندی لگانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اب خدا ہی بہتر جانے کہ ضرورت کب پڑے گی؟۔ یہ تو حکومت کا تجاہُلِ عارفانہ ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے لاعلمی کا اظہار کرکے دامن جھاڑ لیتی ہے۔ اس لئے اب مسلمانوں کو احکامِ اسلام (احکامِ الٰہیہ) پر عمل کرنے اور سرکاروں کی سرکار (مالک الملک و الملوک) سے ہی شکوہ و شکایت کرنے و وابستہ ہونے میں مسائل و مشکلات سے نجات کا چارۂ کار ہے۔ یقیناً آج بھی اگر قرآنی تعلیمات (احکامِ الٰہیہ)کے مطابق زندگی گذاری جائے تو سربلندی و کامرانی بلکہ حکمرانی مسلم قوم کا مستقبل ہے۔ اور ترکِ قرآن میں ذلّت و رسوائی۔
*وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر*
*اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر*
اب ان ہوش رُبا و مشکل حالات میں مسلمانوں کو دنیاوی حکمرانوں کی بجائے (ربّ العالمین) اللّٰہ تعالیٰ سے شاکی و مشتکی و رجوع ہونا چاہئے اس لئے کہ حالات کو لانے والی ذات تو وہی ہے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے "وتلک الأیّام نداولھا بین النّاس" (یہ تو زمانے کے نشیب وفراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)۔
جب کائنات کا ایک ایک ذرّہ اپنے عمل و حرکت کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا محتاج ہے اور لمحہ بہ لمحہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے بخوبی علم ہے، تو کیا اس کو مسلم قوم (مسلم امّہ) پر ہونے والے مظالم اور اس کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا علم نہیں ہوگا؟ یقیناً ہے! اس لئے کہ وہ تو نہاں خانۂ دل میں پوشیدہ رازوں سے باخبر ہے اور سازشیں تو بادی النظر میں رچی جاتی ہیں۔
یہ آزمائشیں مسلم قوم کو دعوت دے رہی ہیں مسلکی و فروعی اختلافات ختم کرنے کی، اتحاد و اتفاق کی اور قرآن مجید (قوانینِ الٰہیہ) کی طرف رجوع اور باہمی اختلافات و خانہ جنگی دور کرنے کی۔ یقین جانئے جب قرآن کی طرف رجوع (احکام و فرامینِ الٰہیۃ پر عمل) ہوگا تو باہمی اختلافات و نزاعات ازخود رفع ہوجائیں گے اور مسلم قوم دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیاب و کامران ہوگی۔ بصورتِ دیگر تباہی و بربادی تو اس کا مقدّر بن ہی چکی ہے، اُخروی کامیابی کی بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
ابتدائے اسلام میں بھی قرآن کے تعلق سے یہی بے اعتنائی کا رویّہ تھا۔ "وقال الرّسولُ یا ربِّ انّ قومی اتّخذوا ھٰذا القرآن مھجوراً " اور رسول نے ﷺ کہا "کہ اے میرے پروردگار،میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا (یعنی ضدّی معاندین نے جب کسی طرح نصیحت پر کان نہ دھرا، تب پیغمبر ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں شکایت کی کہ خداوندا! میری قوم نہیں سنتی، انھوں نے قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کو ( العیاذ باللّٰہ) بکواس قرار دیاہے، جب قرآن پڑھاجاتا ہے تو خوب شور مچاتے اور بک بک جھک جھک کرتے ہیں، تاکہ کوئی شخص سُن اور سمجھ نہ سکے، اس طرح ان اشقیاء نے قرآن جیسی قابلِ قدر کتاب کو بالکل متروک و مہجور کرچھوڑا ہے"۔
تنبیہ: آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے، تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا، اس کی تصحیح ِ قرأت کی طرف توجّہ نہ کرنا، اس سے اعراض کرکے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں )۔
لھٰذا موجودہ حالات میں مسلم قوم کو مصائب ، پریشانیوں، آفات و بلاؤں سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ قرآن (پرعمل) کو لازم پکڑلیں۔ دیوبندیت و بریلویت، شیعیت و سنّیت جیسے اختلافات سے اوپر اٹھ کر اتحاد و اتفاق کو قائم کریں۔ اپنی قیادت و سیادت کو صاف و شفّاف اور مضبوط بنائیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن مجید کی ہدایات و اسلامی تعلیمات کو داخل کریں، پھر کرشمۂ قدرت کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ کیسی فتوحات حاصل ہوتی ہیں؟۔
اگر ان آزمائشی اشارات و کنایات کو بھی قوم نہ سمجھے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرے تو پھر اس کا جو انجام ہورہاہے یہی ہونا چاہئے ، ہوا ہے اور ہوتا بھی رہے گا۔ قرآن میں واقعات موجود ہیں جسے دیدۂ عبرت ہو دیکھ لے۔ یہود و نصاریٰ کی سرکشی اور احکامِ الٰہیہ سے روگردانی پر اللہ ربّ العزت نے کیسی کیسی گوشمالیاں کی ہے ۔ "سورۂ روم" میں دیکھیں کہ اللہ رب العزت کس طرح اقلیت کو اکثریت پر غالب کرتا ہے، اور کس طرح دوستی کو دشمنی اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کردیتا ہے؟ بس شرط ہے رضائے الٰہی کا حصول اور وہ منحصر ہے قرآن کے مطابق عمل پر۔
حاصل! اگر مسلم قوم قرآنی پیغام پر عمل پیرا ہوجائے تو آج کی یہ آزمائشیں آسانیوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں ۔سچ کہا ہے کہنے والے نے:
اذا اشتدّت بک البلویٰ ففکّر فی ألم نشرح
فعسر بین یسرینِ اذا فکّرتہ فافرح
اور فرمایا ہادیٔ اعظم ﷺ نے: "لن یّغلب عسرٌ یُسرینِ" اور فرمایا "لوجاء العسر فدخل ھٰذا الحجر لجاء الیُسرُ حتیٰ یدخل علیہ فیخرجہ"۔ ان تمام کا مطلب سورہ "الشرح" میں موجود ہے، کہ ہر ایک سختی اپنے بعد کئی کئی آسانیاں لے کر آتی ہے۔
بازآمدم برسرِ مقصد : مسلم قوم 'مسلم امۃ' اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور قرآن و احادیثِ مبارکہ (فرامینِ ہادیٔ اعظم ﷺ ) کو عملی زندگی میں ڈھالے۔
Comments
Post a Comment