دل کی بیماریاں اور ان کا علاج
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
٭ الذین آمنوا و تطمئن قلوبھم بذکر اللّٰہ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب ٭
حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "لکُلّ داءٍ دواءٌ" ہر بیماری کے لئے دوا 'علاج' موجود ہے بیماری خواہ جسمانی ہو یا روحانی (قلبی )، مگر قلبی یعنی روحانی بیماری ایسی پُر پیچ ہوتی ہے کہ اس کے علاج ودوا کی تجویز مشکل ترین امر ہے۔ مگر قربان جایئے ہادیٔ اعظم جناب محمد رسول اللّٰہ ﷺ پر کہ جنھوں نے قلبی (روحانی ) بیماریوں کا علاج انتہائی آسان انداز میں تجویز فرمادیا اور وہ ہے "ضبط ِ نفس اور دل پر قابو"۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے "ألا أنّ فی الجسد لمضغۃ اِذا صلحت صلح الجسد کلّہُ واِذا فسدت فسد الجسد کلّہُ ألا وھی القلب" کہ ہوشیار باش !جسمِ انسانی میں ایک لوتھڑا ایساہے کہ جب وہ درست ہوگا بدن کا (روحانی) نظام مکمل درست ہوگا اور اگر اس کے اندر فساد و بگاڑ پیدا ہوگیا تو پورے جسم کے (روحانی) نظام میں فساد پیدا ہوجائے گا اور خوب اچھی طرح جان لو وہ (لوتھڑا) دل ہے۔
حضور پاک ﷺ کا یہ آفاقی پیغام پوری کائنات کے انسانون کے لئے ہے۔ لہٰذا تمام افرادِ بشر کو اصلاحِ قلب ہر توجہ دینی چاہئے اس لئے کہ ایک فرد کے (قلب کے) فساد زدہ ہونے کی وجہ سے پورے معاشرہ کے اندر فساد و بگاڑ کا امکان ہوتا ہے۔
اب فسادِ قلب (دل کی بیماریوں سے یا ابتلائے مرض کے بعد اس) سے نجات کے لئے ضرورت ہوگی طبیبِ روحانی اور سالکینِ طریقت و صوفیاء کے صحبت کی تاکہ ان کی معیت وصحبت اختیار کرکے اپنے اخلاق واندرون (دل) کی اصلاح کرے مگر اس سے پیشتر نسبتِ مصطفوی ﷺ ضروری ہے۔
چنانچہ اگر آپ قرآن وحدیث پر نظر ڈالیں گے تو آپ پر یہ عقدہ عیاں ہوگا "بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نرسیدی تمام بولہبی ست" کہ اپنے آپ کو محمد رسول اللّٰہ ﷺ تک پہونچاؤکیوں کہ سارا کا سارادین آپ کی ذات بابرکات میں پوشیدہ ہے اگر اس تک نہ پہونچے تو سب کچھ بولہبی (بے دینی ) ہے۔
اور جب حضور ﷺ سے نسبت اور ان تک رسائی ہوگئی تو روح و قلب (کی بیماریوں ) کا علاج آسان ہوجائے گا، اس لئے کہ آپ ﷺ کے ارشاد "بعثتُ لاُ تمّم مکارم الأخلاق" سے یہ عندیہ ملتاہے کہ آپ ﷺ کی تخلیق وبعثت کے مقاصد میں سے ایک اخلاق کی اعلیٰ اقدار کی پیشکش بھی ہے، اس لئے کہ روح وقلب میں فساد وبگاڑ بد اخلاقی سے نمو پاتاہے۔
یوں تو دین، اسلام میں کوئی چیز دشوار نہیں ہے کیوں کہ فرمانِ نبوی ﷺ ہے "الدین یسرٌ" کہ دین تو نام ہی آسانی کا ہے، مگر بہت زیادہ آسان بھی نہیں ہے ؎
**یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ٭ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں بننا**
دینِ اسلام اللّٰہ (تک رسائی) کا راستہ ہے اور اس (تک پہونچنے)کے راستہ میں محنت ومشقت اور مجاہدہ درکار ہے، فرمانِ الٰہی ہے "والذین جاھدوا فینا لنہدینّہم سبلنا" اس آیتِ کریمہ سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ باری تعالیٰ تک رسائی کے لئے مشقت و مجاہدہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
اب اللّٰہ تعالیٰ تک رسائی کے راستہ میں حائل برزخوں اور مشقتوں کو آسانیوں سے بدلنے کے لئے "راہِ سلوک" کو طے کرنا ہوگا، اسی سے بارگاہِ ایزدی تک رسائی میں کچھ آسانی نصیب ہوسکتی ہے اور پھر (اس راہِ سلوک کو کما حقّہ طے کرنے کے لئے) مزید ضرورت ہوگی قرآن وسنت پر دسترس، علم و آگہی اور عمل درآمد کی، اس لئے کہ اس سلسلہ میں ہادیٔ اعظم ﷺ کا فرمانِ عالی ہے "ترکتُ فیکم أمرینِ لن تضلّوا ما تمسّکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ" اور صوفیاء نے اپنے ضابطہ میں لکھا بھی ہے" ایں راہ کسے یابد کہ در دستِ راست کتاب اللّٰہ و در دستِ چپ سنّتِ رسول اللّٰہ ﷺ گرفتہ باشد و در روشنائی ایں ہردو شمع رود تا نہ درمغاکِ شبہۃ افتد نہ در ظلمتِ بدعت" یعنی اس (سلوک و طریقت اور رسائی الی اللّٰہ کے) راستہ کو وہی (حاصل یا) طے کرسکتا ہے جو اپنے داہنے ہاتھ میں کتاب اللّٰہ (قرآنی تعلیمات) اور بائیں ہاتھ میں سنتِ رسول اللّٰہ (ہدایاتِ نبوییؐ) لئے ہوئے ہو اور اِنہی دونوں (تعلیمات) کی روشنی میں چلے تاکہ شکوک وشبہات کے عمیق غار اور بدعات کی تاریکیوں میں نہ پھنسے۔ اور جب سالک اس مقام تک پہونچ جائے کہ اس کا ہر عمل قرآن وسنت کے مطابق ہونے لگے تو گویا اس نے سلوک و طریقت کی منزل کو پالیا اور اپنا علاجِ قلب آسان کرلیا۔ کیوں کہ اس مرحلہ پر پہونچ کر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ سالک کے ہر ہر عمل میں خشوع وخضوع پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ صفتِ (خشوع وخضوع )رِیاء تو درکنار شائبۂ ریاء تک کو نابود کردیتاہے، یعنی سالک کا ہرکام، ہر عمل لوِجہِ اللّٰہ بلکہ باِذنِ اللّٰہ انجام پانے لگتاہے او ریہ "احسان" کا زینہ ہے جو سلوک و طریقت (تصوف)کے درجات میں سے ایک درجہ ہے۔ اس لئے کہ صحابہ ؓ کی ایک جماعت نے حضور ﷺ سے دریافت فرمایا کہ "احسان" کیاہے؟ تو جواباً آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "أن تعبد اﷲ کأنّک تراہ فاِن لم تکن تراہ فِانّہ یراک" کہ تم اللّٰہ کی عبادت اس طرح (محویت و فنائیت کے ساتھ) کرو کہ گویا تم اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو (یہ خیال رہے کہ) وہ تم کو دیکھ رہاہے۔یہ طریقت،وتصوف، سلوک او ر احسان کے مراحل ہیں۔ او ر "احسان" تصوف کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ابتداء و انتہا دونوں کی حیثیت رکھتاہے، کیوں کہ کسی چیز کی ابتداء ہی اس کا نقطۂ اختتام ہوتی ہے، مثلاً جب آپ ایک گول دائرہ کشید کرتے ہیں تو جہاں سے دائرہ شروع ہوا ہے بالکل وہیں اختتام پذیر بھی ہوگا، اگر آپ کا آلۂ کشید ابتداء سے پہلے رُک گیا تو دائرہ کامل نہیں ہوگا بلکہ دائرہ کا ڈھانچہ تصور وتسلیم کیا جائے گا۔ بالکل ایسی ہی مثال سلوک و تصوف میں "احسان" کی ہے کہ وہی ابتداء ہے اور انتہا بھی وہی ہے۔
Comments
Post a Comment