کلماتِ صدارت
کلماتِ صدارت برائے امتنان و سپاس گزاری
جامعہ انعام العلوم، دریگاؤں، مالیگاؤں۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدُ للّٰہ وحده، و الصلوۃُ و السلامُ عليٰ مَن لا نبي بعدهُ. أما بعد!
رواقِ منظــرِ چشـمِ من آشیانۂ تو است
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانۂ تو است
!محترم حاضرینِ گرامئ قدر
سب سے پہلے بندہ اپنے پروردگار، رب ذوالجلال والاکرام کی بار گاہِ قدس میں سجدۂ شکر بجالاتا ہے، کہ اس نے ہم سب کو اپنے سچے دین کا تابع و متبع بنایا، حضرت خاتم النّبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرماکر اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی اور ہمیں ان علمائے حق کی جماعت سے انتساب عطا فرمایا، جو کمالِ ایمان، زہد و ورع، خشیتِ الٰہی، تقویٰ وطہارت، اتباعِ سنت اور دینی غیرت وحمیت کا پیکرِ جمیل تھے، پھر مزید کرم یہ فرمایا کہ ہمیں تعلیم و تدریس کی وساطت سے دین کی خدمت سے منسلک فرما کر ملتِ اسلامیہ کی پاسبانی کے اعزاز سے سرفراز فرمایا اور رشد و ہدایت کے منبع و سرچشمہ قرآن کریم کے حفاظ کرام کو دستار فضیلت عطاء کرنے کے لئے اس عظیم الشان پروگرام کے انعقاد کی توفیق ارزانی بھی فرمائی۔
میں اس مبارک موقع پر اپنی اور تمام خدامِ جامعہ انعام العلوم دریگاؤں، مالے گاؤں کی جانب سے جلسہ گاہ میں موجود حضراتِ سامعین، اور اسٹیج پر رونق افروز علمائے کرام و مہمانانِ عظام کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرنا اپنا خوش گوار فریضہ اور خوش قسمتی سمجھتا ہوں، کہ آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اراکین و منتظمینِ ادارہ کی درخواستِ شرکت کو در خور اعتنائی بخشتے ہوئے لبیک کہا، اور پروگرام کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے زحمتِ سفر برادشت کی اور جامعہ انعام العلوم کے اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔
جو آپ حضرات کے علم دوستی، یا "كُنْ عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً أَوْ مُسْتَمِعاً أَوْ مُحِبّاً لَهُمْ وَ لاَ تَكُنِ اَلْخَامِسَ"، کی واضح دلیل ہے۔
!حضراتِ گرامی
'جامعہ انعام العلوم'، مالے گاؤں کے من جملہ جامعات میں سے ایک معتبر ترین ادارہ ہے جس کی علمی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، جس کا آپ فی الوقت بچشمِ خود مشاہدہ کر رہے ہیں، اس کے مزید تعارف کے لئے کافی وقت درکار ہے اس لئے اس امر کو کسی دیگر موقع کے لئے مؤخر کیا جاتا ہے۔
!مہمانانِ عالی وقار
ہمارے اکابر و اسلاف رحمہم اللّٰہ کا طُرۂ امتیاز رہا ہے کہ وہ طلباء کی علمی استعداد و لیاقت بڑھانے پر جس قدر توجہ دیتے تھے، اس سے کہیں زیادہ ان کی عملی تربیت اور کردار سازی کا اہتمام فرماتے تھے، وہ طلبہ کے دلوں میں خشیتِ الہی کی آب یاری فرماتے، ان میں عبادت کا ذوق پروان چڑھاتے، ان کے اعمال واخلاق اور معاشرت و آداب کو سنت کے مطابق ڈھالنے کی تربیت فرماتے، چناں چہ مردم گری اور افراد سازی کے جن اداروں اور کارخانوں سے ایسے باکمال افراد اور رجالِ کار تیار ہوئے، جو رشد و ہدایت کے مینار، علم وفضل کے آفتاب و ماہتاب، سلوک و طریقت کے بادہ خوار، ملک وملت کے معمار اور "در کفِ جامِ شریعت در کفِ سندانِ عشق" کے سچے مصداق بنے، انہی میں سے ایک ادارہ جامعہ انعام العلوم دریگاؤں، مالے گاؤں بھی ہے، جو آپ جیسے مخلصین و محبینِ علم و دین کی سایۂ عاطفت میں روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔
آپ حضرات سے امید اور ساتھ ہی ساتھ گزارش ہے کہ آئندہ بھی اس جامعہ کے لئے اپنی محبّت اور الطاف و عنایاتِ جمیلہ کا تسلسل برقرار رکھیں گے۔
!طلباء عزیز
آپ حضرات نیز آپ کے والدین و سرپرستوں، آپ کے اساتذۂ کرام اور خود جامعہ انعام العلوم کے لئے انتہائی افتخار اور فرحت و انبساط کی بات ہے کہ آپ حفظِ قرآن کریم کی سعادت سے مشرف و مالا مال ہوئے۔ آپ حضرات کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ حفظ قرآن کریم جیسی عظیم دولت کوئی بھی طالب علم تنِ تنہا حاصل نہیں کرسکتا بلکہ ساتھ میں معلم کا ہونا ضروری ہے، اس سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہیکہ آپ لوگوں کی اس کامیابی کے پیچھے صرف آپ لوگوں کی ہی کد و کاوش کارفرما نہیں ہے بلکہ معلمین (آپ کے اساتذۂ کرام کی شبانہ روز کی التفات اور مشفقانہ توجہات و عرق ریزیاں، اور ساتھ ساتھ ادارہ کے منتظمین کی دعائے نیم شبی) بھی شامل رہی ہیں تب کہیں آپ حضرات اس قابل ہو ئے کہ اب نہ صرف یہ کہ اپنی ترقی کی راہ ہموار کرسکیں بلکہ آپ اس مقامِ اعلیٰ کو پہنچ گئے کہ روئے زمین کے مختلف علاقوں و خطوں میں جاکر قرآن کریم کے تعلیم و تعلّم جیسے اہم امر کو انجام دے کر رضائے الٰہی حاصل کرسکیں۔
عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا زبــزمِ عشق یک دانائے راز آیــد بـروں
سالہا دیر و حــرم میں زنــدگی روتی رہی
تب کہیں نکلا کوئی اس بزم سے دانائے راز
بہر کیف! ان باتوں کے ساتھ ہی ضرورت ہے کہ آپ اپنے اندر روحانیت بھی پیدا کریں اور صرف پیدا ہی نہ کریں بلکہ اس روحانی طاقت کو عالمی سطح پر بروئے کار لائیں، تاکہ پوری کائنات بقعۂ نور ہوجائے۔
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
ہزار چشــمہ تری گـردِ راہ سے پھــوٹے
!عزیزانِ طلباء
آپ حضرات کے ساتھ میری نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں کہ آپ جہاں کہیں بھی رہیں کامیابیوں سے ہم کنار ہوں، دین کی سربلندی و سرفرازی کے لئے کوشاں رہیں۔ اخلاق کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ لوگوں کو آپ کی تربیت گاہ کے متعلق جستجو پیدا ہونے لگے، آپ سے ملنے جُلنے والے لوگ آپ کی تربیت گاہ کو دیکھنے کے متمنی ہوں، جس کے جواب میں آپ جامعہ انعام العلوم کے ترجمان کے طور پر خود کو ہی پیش کردیں، کہ مجھے ہی دیکھ لیجیۓ میری ذات و صفات میں مجسّم انعام العلوم نظر آئے گا۔
جیسا کہ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی چہیتی بیٹی زیب النساء نے کسی متمنی دیدار کے جواب میں کہا تھا:
در سخن مخفی منم چوں بوئے گُل در برگِ گل
ہر کہ دیــدن میــل دارد در سخن بیند مُرا
واقعہ در اصل یوں ہے کہ ایران کے ایک شہزادے نے ایک مصرعہ کہا
"دُرِ ابلق کسے دیدہ کم موجود"
تو دوسرا مصرعہ زیب النساء نے لگایا، 'مخفی' اس کا تخلص تھا۔
"مگر اشکِ بتانِ سرمہ آلود"
یہ قصہ کافی طویل ہے، برائے وضاحت لب لباب بیان کردیا گیا۔
اس جواب پر اس شہزادہ نے زیب النساء کے دیدار کی تمنّا کا اظہار کیا جس پر اس نے پہلے والے دو مصرعے کہے تھے، کہ "میں اپنے کلام اسی طرح مخفی (پوشیدہ) ہوں جس طرح کہ پھولوں کی خوشبو پھولوں پتیوں میں پوشیدہ رہتی ہے، چنانچہ جو مجھے دیکھنے کا میلان رکھتا ہے وہ مجھے میرے کلام و سخن میں دیکھ لے"۔
تو انعام العلوم کے طلباء اس کا مصداق بننے کی کوشش کریں۔
اب میں مائک کو ناظم جلسہ کے حوالے کرتا ہوں، اس شعر کے ساتھ کہ:
تو صاحب رتبی بگیر ایں دستۂ گل از من
کہ گل بــدستِ تو از شــاخ تـازہ تر مانــد
و آخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین۔
والسلام علیکم
بتاریخ: 10، شعبان المعظم 1446ھ، بمطابق:
9، فروری 2025ء، بروز یکشنبہ، بعد نمازِ مغرب۔
Comments
Post a Comment