کیا شخص زمانے سے اُٹھا
فقید المثال ادیب، عدیم النظیر شخصیت
شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی (استاذ حدیث و ادب، دارالعلوم وقف دیوبند)
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد!
عزیزم مولانا بدر الاسلام قاسمی صاحب کا اطلاع نامہ موصول ہوا، معلوم ہوا کہ عزیزم اپنے مرحوم والد گرامی (شیخ الادب، اعجازِ رقم، حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی صاحب) کی حیات و خدمات پر مشتمل مواد برائے اشاعت و تحفظ جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حضرت مولانا کے خاص منتسبین و متعلقین سے مضامین تحریر کرنے کی درخواست کی ہے۔ چونکہ راقم السطور کو بھی حضرت والا سے یک گونہ ربط و علاقہ تھا اس لئے مجھ ناچیز کو بھی یاد کیا، جس کے لئے میں بصمیمِ قلب ان کا مشکور و ممنون ہوں۔
اولاً تو دل میں یہ خیال گذرا کہ
حضرت مولانا کے شناساؤں و متعلقین و محبین میں ایک سے بڑھ کر ایک گراں قدر رشحات نگار موجود ہیں، وہ خامہ فرسا جو باتیں سپرد قلم کریں گے، ان بڑے بڑے ماہر و مشاق قلم کاروں کی تحریروں میں حضرت کی حیات و خدمات کے تمام گوشے شامل و نمایاں ہوکر معرضِ وجود میں آجائیں گے۔
عباراتنا شتّٰی و حسنک واحد
وکل الٰی ذالک الجمال یشیر
ایسے میں مجھ بے بضاعت کی تحریر چہ معنیٰ دارد؟ مگر پھر ارادہ ہوا کہ (بموافق محاورہ "انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونا"، یا بمصداق " گوید این زن از خریدارانِ اوست") چند سطور کا سہارا لے کر حضرت والا کے شناساؤں و ربط گیروں کی فہرست میں اپنا نام بھی درج کرالیا جائے۔
نہ من بر آں گلِ عارض غزل سرایم و بس
کہ عنـــدلیب تو از ہر طـــرف ہزاراننـــد
بہر کیف! حضرت مولانا گوناگوں خصوصیات، منفرد لب ولہجہ کے مالک، مختلف علوم و فنون پر عبور و دست رس کے حامل اور متبحر عالم دین تھے۔ حضرت کا اندازِ تدریس و خطابت، اسلوبِ نگارش کسی سے مستعار و مرہون نہیں بلکہ کچھ اختراعی اور زیادہ تر وہبی و عطائی تھا۔
بالاختصار یہ کہ حضرت والا جیسی عظیم المرتبت و نابغۂ روزگار شخصیات مدتوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ یقیناً حضرت والا کو اس مقام ارفع و اعلیٰ تک پہنچنے میں جہاں ان کی ذاتی کاوشوں کا دخل تھا وہیں ان کے مخلص و مشفق اساتذۂ کرام کی شبانہ روز محنتیں و نالہائے نیم شبی (مستجاب دعائیں) بھی شامل تھیں۔
عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا زبــزمِ عشق یک دانائے راز آیـــد بروں
حضرت مولانا اس قدر اوصاف و کمالات اور محاسن کے مالک تھے کہ ذہن اس بات سے قاصر ہے کہ کن کن اوصاف کا احاطہ کیا جائے اور کن کن کو ترک کیا جائے۔ جیتے جی تو حضرت کی خدمت میں کوئی بے ادبی نہیں ہونے پائی، اب خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پسِ از مرگ کوئی قلمی گستاخی سرزد ہوجائے، لہٰذا زیادہ کچھ لکھنے کی بجائے بمصداق "دریا بکوزہ" اس پر اکتفاء کرتا ہوں کہ۔
دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار
گل چیـنِ بہارِ تو زداماں گلہ دارنـــد
قرطاس و قلم:
فہم و فراست، ذکاوت و ذہانت، دانشوری اور دیدہ وری میں اپنی مثال آپ تھے، کتب بینی اور وسعت مطالعہ میں کمال کی گیرائی، اردو زبان و ادب میں خصوصی امتیاز، عربی ادب کے گوہر مایہ ناز ، مضمون نگاری اور انشاءپردازی میں فقید المثال، قلم کے دھنی، فن خطاطی کے ماہر، خوش قلم، اعجاز رقم، خط نسخ، نستعلیق، رِقاع، ثلث و دیوانی اور جدید مصری (کوفی) خطوط کے اپنے وقت کے نادر و یکتا خطاط تھے، گفتگو میں شُستگی، تحریر میں برجستگی، رہن سہن میں سادگی و شائستگی، دوست و احباب سے بےتکلفی، آزاد مزاج، اور ان سب پر مستزاد یہ کہ سراپا اخلاص کے پیکر تھے۔ بایں ہمہ تعلی پسندی اور تصنعات سے بالکل عاری۔
امتیازی خصوصیت:
حضرت والا کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ درس کے علاوہ (خارج) اوقات میں بھی مخصوص کتابیں ہر سال چند (باذوق) طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے، اور خط (کتابت) کی اصلاح کے لئے بھی عصر کے بعد کا وقت متعین تھا۔
میں نے 91-1990ء دو سال عصر کے بعد استفادہ کیا ہے جبکہ میرے موقوف علیہ و دورۂ حدیث کے سال تھے۔ اس وقت حضرت 'محلہ شاہ رمز الدین' میں سکونت پزیر تھے۔ پہلے تو (خط) کتابت کی اصلاح لی۔ جس میں خط رِقاع، ثلث، دیوانی، جدید مصری خطوط شامل تھے۔ اس وقت میرے ساتھ اصلاح لینے والوں میں میرے ہم درس حضرت مولانا کے وطن کے ہی ایک طالب علم 'مولانا عبد العلیم دمکوی'۔ اور 'مولانا رضوان الحق مظفر پوری بھی' تھے۔ اور یہ واضح رہے کہ حضرت کے وہاں خط کی اصلاح لینے والے ہر دو دارالعلوم کے طلباء ہوا کرتے تھے، کوئی تفریق و امتیاز نہیں تھا، اپنے وہاں وارد ہونے والے ہر طالب علم سے ایسا والہانہ لگاؤ رکھتے تھے کہ وہ یہی سمجھتا تھا کہ حضرت مجھ سے ہی سب سے زیادہ شفقت و محبت رکھتے ہیں۔
جب حضرت والا 'محلہ شاہ رمز الدین' سے منتقل ہوکر 'محلہ خانقاہ' میں اپنے ذاتی مکان میں رہائش پذیر ہوئے تو اس وقت اصلاح لینے والوں کو عصر کے بعد کبھی گھر پر اور کبھی خانقاہ کی مسجد میں ہی بیٹھ کر اصلاح فرماتے۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ کھڑے کھڑے ہی خط کی اصلاح شاذ نادر ہی کوئی خطاط کرتا یا دیتا ہوگا (کیونکہ اس حالت میں قلم چلانا مشکل کام ہے)، الاّ یہ کہ وہ بھی حضرت والا کا ہی فیض یافتہ ہو۔ حضرت کے گھر کے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹاتے ہی سوالیہ آواز بلند ہوتی 'کون؟' رد الجواب سماعت فرماکر کبھی خود باہر تشریف لاتے، اور کبھی کبھار اپنے صاحب زادوں میں سے کسی کو بولتے کہ دیکھو کون ہے؟ اگر فرصت نہ رہتی، یا طبیعت میں اضمحلال و انقباض رہتا تو کہلواتے کہ کل آنا، خیر! کھڑے کھڑے ہی ابتداءً تین تین حروف یومیہ سبق دیتے، پھر حروف ہجائیہ (مفردات) کی تکمیل کے بعد والے مراحل (مرکب) یعنی جوڑ والے حروف کی مشق میں تین تین دن میں ہر حرف کا جوڑ (تختی) پورا کراتے۔ ایک رسم الخط کے مفرد و مرکب کی تکمیل کے بعد ایک ہفتہ تین چار سطر کی عبارات لکھواتے۔ پھر اسی طرح دیگر رسم الخطوط (خوش نویسی کے خطوط ششگانہ) کی تکمیل کراتے۔
بہر کیف! فراغت کے بعد 1992ء سے 1996ء تک (پانچ سال) میں اپنے وطن و قرب وجوار میں تدریسی سلسلہ سے منسلک رہا۔ اس دوران وقفہ وقفہ سے حضرت والا سے مکاتبت و مراسلت جاری رہی، حسب موقع مفید و مشفقانہ مشوروں سے نوازتے رہے۔
پھر تدریسی سلسلہ کو خیرباد کہہ کر مَیں 1996ء میں دوبارہ دیوبند چلا گیا اور کتابت کا شغل اختیار کرلیا۔ اب حضرت والا سے بالمشافہ برابر ملاقات اور استفادہ کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔
حکم تیرا ہے تو تعمیل کیے دیتے ہیں:
جب دیوبند میں کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کا سلسلہ زور پکڑ گیا تو حضرت نے کتابت و طباعت سے متعلق کمپیوٹر کورس (DTP) سیکھنے کا مشورہ دیا، حضرت نے کہا کہ میں نے بھی یہ کورس مکمل کیا ہے، مگر مصروفیات کی وجہ سے کمپیوٹر پر کام کرنے کا خاطر خواہ موقع ہی میسر نہیں ہوتا، اور اصل بات تو یہ ہے کہ ٹائیٹل و ڈیزائننگ کا جو کام دستی کتابت و کاریگری سے ہوجائے گا کمپیوٹر سے وہ ممکن نہیں۔
خیر حضرت کے مشورہ کو حکم کے درجہ میں رکھ کر میں نے وہ کورس کرلیا، مگر دستی کتابت کے بالمقابل کمپیوٹر سے کتابت میں کوفت محسوس ہوتی تھی۔
اندازِ مستعار:
ایک مرتبہ میں نے حضرت والا سے عربی ادب و دیگر کچھ کتابوں کے پڑھنے کے ارادہ کا اظہار کیا تو بولے کہ ٹھیک ہے، مناسب موقع دیکھ کر بتاتا ہوں۔ کچھ وقت گذرنے کے بعد بطور یاد دہانی میں نے مکرر عرض کیا تو عصر کے بعد کا وقت مقرر فرمایا، ہفتہ میں چار سے پانچ دن تقریباً پندرہ تا بیس منٹ وقت فراہم کرتے، اس طرح کم و بیش دو سال کے عرصہ میں مختلف کتابیں جستہ جستہ پڑھائیں۔ جن میں "سبعہ معلقہ، دیوان حماسہ، مختارات، تاریخ الادب العربی (جلد اول و دوم) کے کچھ اجزاء، رسم المفتی، مسامرہ" شامل ہیں۔
حضرت مولانا کا خارج اوقات میں (خط) کتابت کی اصلاح اور متمنی طلبہ کو کتابیں پڑھانے کا ذوق و شوق وحید العصر حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی سے مستعار تھا، جن کے فیضِ خاص سے حضرت مولانا کو بھی وافر حصہ عطاء ہوا تھا۔ حضرت مولانا کیرانوی بھی شائق طلبہ کو خارج اوقات میں جدید عربی رسم الخط سکھا دیتے تھے، اور کتابیں بھی پڑھا دیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے سبکدوش کئے جانے کے بعد حضرت مولانا کیرانوی قاضی مسجد سے عصر کی نماز ادا کرکے شمالی دروازہ سے باہر نکلے اور جناب منشی امتیاز احمد صاحب (صاحب زادہ حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب دیوبندی) کے ساتھ میں بھی وہیں پہنچ گیا، حضرت مولانا کیرانوی منشی جی کا بہت ادب و احترام کیا کرتے تھے، منجملہ اسبابِ ادب کے ایک سبب یہ بھی تھا کہ مولانا کیرانوی نے کتابت کی نوک و پلک حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب (والدِ گرامی جناب منشی امتیاز احمد صاحب) کی زیرِ نگرانی ہی درست کیا تھا، (حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب دیوبند کے عثمانی خانوادہ کے ایک شریف النفس اور قابل قدر فرد تھے، خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست عالم بھی تھے، دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ خوش خطی کے پہلے استاذ مقرر ہوئے تھے) وہیں خالد لائیبریری کے پاس تھوڑی دیر کھڑے کھڑے دونوں حضرات گفتگو کرتے رہے، بغل کی ایک دکان سے مولانا کیرانوی نے سنہرے رنگ کا ایک قلم خرید کر منشی امتیاز احمد صاحب کو ہدیۃً پیش کیا، بات اور آگے نکلی، منشی جی نے پوچھا کہ کیسے اوقات گزر رہے ہیں؟ تو حضرت نے فرمایا کہ "بالکل بے شغل ہوکر رہ گیا ہوں، ایسی کیفیت ہے کہ اس کے اظہار کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں" ہاں اب مصروفیت شروع ہونے کو ہے، اس لئے کہ چند طلبہ استفادہ کرنے کو بار بار اصرار کر رہے ہیں، ارادہ ہے کہ ہفتہ عشرہ میں دار المؤلفین کی بالائی منزل پر ان کے لئے تدریس کا انتظام کروں گا، اس سے علمی شغف برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ، ان شاء اللّٰہ کسی قدر سکونِ قلب بھی میسر ہوگا۔ اور آگے چل کر ایسا ہی کیا، عصر سے مغرب تک عربی ادب کی مختلف کتابیں پڑھانے اور تمرین الانشاء کا سلسلہ شروع کردیا۔
باز آمدم برسرِ مطلب! حضرت مولانا محمد اسلام صاحب پر طلبہ کے خط کی اصلاح اور خارجی اوقات میں تدریس کا رنگ حضرت مولانا کیرانوی نے ہی چڑھایا تھا۔ ایسی نادر شخصیات مدتوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے:-
سالہا دیر و حـــرم میں زندگی روتی رہی
تب کہیں نکلا کوئی اس بزم سے دانائےراز
سن 2002ء میں مَیں نے کتابت اور دیوبند دونوں سے رخصت لے لیا، اب اپنے وطن میں گھر پر ہی سکونت اختیار کرلی، اور یہیں پر کام میں مشغول ہوگیا، وقفہ وقفہ سے حضرت سے مراسلت و مکاتبت ہوتی رہتی۔ جب موبائل فون کی سہولت میسر ہوگئی تو اس کے ذریعہ رابطہ ہونے لگا، اس کے علاوہ تقریباً ہر سال چند روز کے لئے دیوبند کا سفر ہوتا حضرت سے ملاقات کا شرف اور فیض بھی حاصل ہوتا۔ جب ملٹی میڈیا موبائل اور سماجی روابط کی سائیٹس (فیس بک و واٹس ایپ وغیرہ) کا استعمال عام ہوگیا تو واٹس ایپ کے ذریعہ رابطہ ہونے لگا، جہاں تک مجھے یاد ہے سن 2010ء سے تقریباً ہر پندرہ روز میں حضرت سے رابطہ ہوجاتا، اگر کبھی میری طرف سے رابطہ کرنے میں کوتاہی ہوتی تو حضرت کی طرف سے ہی فون یا میسج آجایا کرتا تھا۔ حضرت کی علالت کے دوران تو ایسا لگتا کہ جیسے انہوں نے کیلینڈر میں یاد دہانی (ریمائنڈر) سیٹ کردیا ہو ٹھیک پندرہویں دن احوال پُرسی کرتے، اس میں کبھی مولانا عبد العلیم کے متعلق اور کبھی کبھار گورکھپور کے اپنے خاص تلمیذ رشید مولانا ڈاکٹر رفیع الدین قاسمی کے متعلق بھی دریافت کرتے۔
2010ء کے دیوبند کے سفر میں ملاقات کے دوران میں نے حضرت مولانا سے کہا کہ میں اپنا ایک ذاتی بلاگ تیار کرانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی تحریروں نیز عملیات اور اس کے متعلقات کو افادۂ عام کے لئے اس پر اپلوڈ کرسکوں، حضرت نے فرمایا کہ بہتر ہے، میں نے استفسار کیا کہ بلاگ کا نام تجویز فرمادیں۔ آپ نے برجستہ کہا کہ میرا ماہنامہ "الثقافہ" بند ہے، تو اسی کے نام پر بلاگ بنوا لو، اسی بہانے جب کسی پوسٹ یا اپڈیٹ کی لنکس موصول ہوگی تو یاد تازہ ہوجایا کرے گی۔ چنانچہ میں "دارالثقافہ" نام رکھ لیا، (darulsaqafah.in) سے سرچ کیا جاسکتا ہے۔
مقرّباں را بیش بوّد حیرانی:
حضرت مولانا اپنی عمر کے آخری دور ( مئی 2018تا جون 2023 ) پانچ سال فالج کے اثرات کی وجہ سے معتدد پیچیدہ امراض میں مبتلا تھے۔ اور یہ ابتلاء و آزمائش در حقیقت مرض نہیں بلکہ آپ کے خاصان خدا ہونے کی دلیل تھی، جیسا کہ حدیث نبوی "أشدّ الناس بلآءً الأنبياء ثم الأمثل فالأمثل" اس پر شاہد ہے۔ بہر حال فالج کے سبب آپ کی فعالیت بری طرح متاثر ہوگئی تھی۔ پھر بھی چون کہ آپ طبعی طور پر قوی الہمّت واقع ہوئے تھے اس لئے امراض کی شدّت کے باوجود اپنی علمی سرگرمیوں کو ترک نہیں کیا بلکہ حتی المقدور جاری رکھا۔
مولانا ئے مرحوم سے میری آخری ملاقات 25، و 26، نومبر بروز جمعہ و ہفتہ 2022ء بعد نماز مغرب ہوئی تھی۔ اور یہ ملاقات کافی لمبی رہی، مغرب کے بعد سے عشاء کے کافی بعد تک۔ اس وقت میرے ہمراہ حضرت مولانا کے ایک خاص و بے تکلف دوست بلکہ حضرت مولانا کی پندرہ روزہ "الداعی" کی نیابتِ ادارت و ترتیب سازی کے دوران اس کی کتابت کرنے والے، میرے محترم و مشفق اور ہم وطن 'جناب مولانا اسرار احمد قاسمی صاحب' تھے، (جن کی وساطت سے حضرت مولانا سے میری شناسائی ہوئی تھی) جن کو حضرت مولانا "کاتب جی" کہا کرتے تھے۔ ہوا یوں کہ جب 25، نومبر کو میں حضرت سے ملنے کے لئے گیا تو بولے کہ کل بھی آنا اور ساتھ میں کاتب جی کو بھی لانے کی کوشش کرنا کیونکہ کافی وقت سے ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ میں نے ہامی بھرلی کہ ٹھیک ہے کل صبح کو آتا ہوں (ان شاء اللّٰہ)، تو حضرت نے کہا کہ صبح مت آنا اس لئے کہ کل میں سبق پڑھانے جانے کا ارادہ ہے۔ بہر حال! مغرب کے بعد ہم دونوں حاضر ہوئے، اب چونکہ ان کے مجلس کے دوست مل گئے اس لئے ملاقات کافی طویل رہی، گفت و شنید میں ایسا والہانہ انداز و انہماک رہا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ حضرت بیمار ہیں۔ خیر چلتے چلتے میں نے پوچھا کہ آج صبح پڑھانے جانا ہوا تھا کہ نہیں؟ حضرت بولے کہ گیا تھا، مگر پڑھا نہی سکا، اس لئے کہ مولانا محمد شکیب نے کہا کہ "حضرت آپ آرام کیجئے اور اپنی صحت و علاج پر توجہ دیجئے، بس آپ کی موجودگی ہی ہم لوگوں کے لئے باعث خیر و برکت ہے"۔ اور مولانا محمد شکیب کے اخلاقِ کریمانہ و فاضلانہ کا ذکر کیا، بہت تعریف کی، دعائیں دیں، بتایا کہ ہر ماہ میرا مشاہرہ پابندی سے بھیجوا دیتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی کافی خیال رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
27، نومبر کو میں وطن واپس آگیا۔
اس کے بعد سے فون پر ہی رابطہ ہوتا رہتا تھا۔ بالآخر 16، جون 2023ء بروز جمعہ عزیزم مولانا بدر الاسلام قاسمی صاحب کے واٹس ایپ میسج کی وساطت سے اطلاع ملی کہ حضرت نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ (فإنّا للّٰه و إنا إليه راجعون)
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
تُعرف الأشياء بأضدادها:
ضِدّانِ لمّا استُجمِعَا حَسُنَاو
الضّدُّ يُظهِرُ حُسْنَهُ الضِّدُّ
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی فرد کو اس کے نام اور چہرہ سے تو واقف ہوتے ہیں، مگر اس شخصیت اور اس میں پوشیدہ جوہر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اتفاقاً جب کوئی واقف کار اس کے سامنے اس شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کرتا ہے تب اس پر عیاں ہوتا ہے۔ اور وہ شخص کف افسوس ملتا ہے، اے کاش! مجھے پہلے معلوم ہوتا تو اس سے استفادہ کرتا۔
بہر کیف! اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ (مرحوم) حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی صاحب کی حیات و خدمات پر مشتمل مجموعہ مقالات (کیا شخص زمانے سے اُٹھا) کی وساطت سے حضرت کے احباب و معاصرین، تلامذہ و لواحقین کے پیش کردہ تاثرات اور افکار و خیالات نیز شذرات کے مطالعہ کے بعد اگر کسی کے دل میں استفادہ کا داعیہ پیدا ہو تو اسے پچھتانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت ہے کہ حضرت مولانا کے قلمِ گہربار، خامۂ دُرویش و دُرفشاں سے نکلے ہوئے جواہر پاروں (تالیفات و تصنیفات) کا مطالعہ کرے۔
اس لئے کہ بڑی شخصیات کبھی بھی اپنی جسامت اور چہرہ مہرہ سے نہیں بلکہ تعلیمی و تدریسی اور تصنیفی نیز ہم چنیں دیگر خدمات و کارکردگی سے متعارف ہوئی ہیں، اکابرین کی صلاحیت و صالحیت کو ان کے کلام و سخن اور طرز سخن سے نہ صرف پہچانا جاسکتا ہے بلکہ کامل استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ و لِلّٰهِ دُرُّ القائل:
درسخن مخفی منم چوں بوئے گُل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مُرا
نوٹ: حضرت کی تالیفات و تصنیفات کو ان کے خلف الرشید مولانا بدر الاسلام قاسمی نے مکتبہ النور دیوبند سے شائع کیا ہے۔ وہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
Comments
Post a Comment