عملیات (جھاڑ پھونک) ایک المیہ
عملیات (جھاڑ پھونک) ایک المیہ
جسمِ انسانی میں دو طرح کی بیماریاں وجود پاتی ہیں۔ (۱) رو حانی۔ (۲) بدنی۔ جیسا کہ "وننزّل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ " سے ظاہر ہے ۔
چنانچہ مفسریں نے لکھا ہے کہ "شفاء سے صرف روحانی وقلبی بیماریاں (عقائدِ باطلہ ، اخلاقِ ذمیمہ اور شکوک و شبہات وغیرہ مِٹ کرصحتِ باطنی حاصل ہونا) مراد نہیں بلکہ بدنی امراض واسقام سے نجات بھی شامل ہے۔
قدیم زمانہ میں علاج (روحانی و بدنی) کے لئے الگ الگ شعبے و معالج نہیں تھے، بلکہ اکثر حکماء و اطباء روحانی (قلبی) و بدنی دونوں بیماریوں کے علاج و مداویٰ میں کامل دسترس و مہارت رکھتے تھے۔ مرورِِ ایام کے ساتھ ساتھ نہ صرف دونوں شعبے الگ ہوگئے بلکہ دونوں میدانوں میں ناقصین نے اپنے اپنے پرچم لہرادیئے۔
قدیم حکماء جب کسی کا بدنی (طبّی) علاج کرتے تھے اگر مریض کو صحت وشفاء نصیب ہونے میں تاخیر ہوتی تو اپنی روحانی طاقت وقوت (مراقبہ) سے اس پر واقع ہوجانے والے بیرونی اثرات (آسیب، جن وشیطان) کا پتہ لگاکر اس کو زائل کردیتے تھے۔
روحانی و قلبی بیماریوں کے علاج کے لئے فی الوقت تو خانقاہوں میں لوگ رجوع ہوتے ہیں جہاں کے احوال ابھی بھی کسی قدرغنیمت ہیں۔ مگر بدنی امراض کے علاج کے لئے ابھی بھی کافی دقتیں ہیں، اس لئے کہ اب اس میں بھی دو طرح کے لوگ درآئے ہیں۔ اور حال یہ ہے دونوں ہی اپنے اپنے شغل کے ابجدات تک سے ناواقف ہیں۔ (۱) نیم حکیم (۲) نیم ملاّ ( عاملِ ناقص )۔
آج کل عملیاتِ (ناقصہ، سحر، ٹونہ، کرنی، کرتب) کا دور دورہ ہے۔ اخبارات و رسائل میں بیڑہ غرق عاملین کے اشتہارات بھرے پڑے رہتے ہیں (اس لئے کہ اہلِ نسبت اور عاملینِ ِکاملین کو تو اشتہار کی حاجت ہی نہیں، ان کے سرپر تو لوگ ویسے ہی سوار رہتے ہیں، جان بچانا اورفرصت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے)۔
چنانچہ حضرت تھانوی ؒ جوکہ صاحبِ نسبت تھے عملیات سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا مگر نسبت کی بنیاد پر ان کے وہاں حصولِ تعویذ کی غرض سے لوگ رجوع کرتے تھے، گاہ بگاہ اژدہام کی وجہ سے تعویذ نویسی موقوف کردیتے تھے۔
حضرت خود فرماتے ہیں کہ:
"اگر کبھی تعویذ مانگنے والوں کا ہجوم ہونے لگتا ہے تو بالکل موقوف کردیتے ہیں"۔
تعویذ نویسی کی مناسبت سے فرماتے ہیں کہ:
" تعویذ گنڈہ ایک مستقل فن ہے، میں اس فن سے واقف نہیں، مجھے ان تعویذ گنڈوں سے سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔ مگر حضرت حاجی صاحب ؒ کے ارشاد کی وجہ سے کہ انھوں نے فرمایاتھا کہ جو کوئی تعویذ کی حاجت لے کر آیاکرے جو بھی تمھارے جی میں آئے اللّٰہ کا نام لکھ کر دے دیا کرنا، اسی لئے لکھ کر دے دیتا ہوں ورنہ طبعی طور پر مجھے ان چیزوں سے مناسبت نہیں"۔
باز آمدم برسرِ مطلب: " یہ ہجوم و اژدہام بغیر اشتہار کے تھا "۔
بہر کیف! عملیاتِ ناقصہ کی ترقی اور عاملینِ ناقصین کو پروان چڑھانے میں ناقص العلم اطبّاء (ابجداتِ طب ، مبادیاتِ طب اور قوانینِ طب سے ناواقف طبیبوں، نیم حکیموں) کا بھی بڑا کردار رہاہے۔ عموماً امراض و اسقام سے جوجھ رہے افراد و حضرات ناتجربہ کار طبیبوں، نیم حکیموں اور بیگ بردار ڈاکٹروں سے علاجِ شافی نہ پاکر (نامراد ہوکر) عاملوں کی طرف رجوع ہوتے ہیں مگر سوئے اتفاق کہ وہاں بھی جاہل ( ضبلکہ ناقص و نام نہاد) عاملین سے سابقہ پڑجاتا ہے، نتیجہ یہ کہ جن امراض میں آسیبی اثرات سے مشابہ (ملتی جلتی) کیفیات ہوتی ہیں ان کی صحیح تشخیص یا (مابعدِ تشخیص کارگر علاج) تجویز نہ ہونے کی وجہ سے عاملین کے پھیرے لگاتے ہیں۔ اور ان (عاملین) حضرات کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف مرض کو لاعلاج و لاینحل مراحل تک پہونچادیتے ہیں بلکہ مریض کو بسترِ مرگ پر پہونچاکر آخری سانسیں گننے پر مجبور کرتے ہوئے اپنی جیب و بازار گرم کرلیتے ہیں۔
اور اس میں بھی سراسر عاملین کاہی قصور نہیں بلکہ عوام کا اعتقاد ہی یہی ہے کہ اگر ایک مرتبہ بھی کسی شخص کو کسی امر میں کامیابی مل گئی ( ایک مرتبہ رجسٹری ہوگئی کسی کے کمال کی پھر تو عقد فسخ ہوتا ہی نہیں )۔
جیسا کہ ایک واقعہ ہے: " ایک مہاجن کی لڑکی پر ایک جِن عاشق تھا بڑے بڑے عامل آئے مگر ناکامیاب رہے، بعض جِن بڑا ہی سرکش اور قوی ہوتاہے جو عامل جاتا صحیح سلامت واپس نہ ہوتا اکثر یہ حرکت کرتا کہ ہاتھ پکڑکر چھت اُبھار کر اس میں دبا دیتا ۔ اب بیچارہ عامل ہے کہ لٹکا ہواہے، ایسا ظالم تھا، کسی نے اس مہاجن سے ویسے ہی بطور تمسخر کہہ دیا کہ فلاں مسجد میں جو مؤذن ہیں بہت ہی بڑے عامل ہیں وہ مہاجن ان بیچارے کو جا لِپٹا یہ ہرچند قسم کھاتا ہے مگر مہاجن ہے کہ پیروں پر گرا پڑتا ہے خوشامد کررہاہے، جب یہ عاجز ہوگیا اس نے کہاکہ اچھا میں چلتا ہوں۔ یہ بتلاؤ کیا دوگے؟ مہاجن نے کہا کہ جو کہو، کہاکہ پانچ سو روپیہ، اس نے کہاکہ منظور! یہ سمجھا کہ دو ہی باتیں ہیں یا تو کام بن گیا اور پانچ سو روپیہ مل گیا تو بڑی راحت اور عیش سے گذرے گی، اور اگر مار دیگا تو اس مصیبت سے اور پریشانی و ناداری کی زندگی سے مرجانا ہی بہتر ہے، بیچارہ غریب تھا " بسم اللّٰہ" پڑھ کر مہاجن کے ساتھ ہولیا اس کے مکان پر پہنچا اس جِن نے نہایت زور سے ڈانٹا کہ کیسے آیا ہے؟ ہاتھ جوڑ کر قدموں میں گرگیا کہ حضور کی رعیت کا جولاہا ہوں حضور نہ میں عامل ہوں نہ میں عمل چلانے آیا ہوں ایک جاہل اور غریب آدمی ہوں یہ مہاجن جاکر سر ہوگیا ہرچند عذر کیا نہ مانا اس لئے مجبوری کو چلا آیا حضور کی بڑی پرورش ہوگی اگر حضور پانچ منٹ کے لئے اس لڑکی سے جدا ہوجائیں مجھ کو پانچ روپیہ مل جائے گا میں غریب آدمی ہوں میرا بھلا ہوجائے گا اور حضور کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ پھر اگر دل چاہے آجایئے۔
یہ سن کر جِن بڑے زور سے قہقہہ مارکر ہنسا اور یہ کہا کہ "ہم تیری خاطر سے ہمیشہ کے لئے جاتے ہیں"۔ حضرت اس مؤذن کی شہرت ہوگئی کہ بہت بڑا عامل ہے عمر بھر کی روٹیاں سیدھی ہوگئیں۔ ( ملفوظات حکیم الامت ج:1؍ ص: 326؍مطبوعہ ۔ " ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان ")۔
راقم السطور نے اپنے بیس سالہ تجربہ کن معالجاتی دورانیہ میں بخوبی اندازہ لگایا ہے کہ اگر چند ( تقریباً درجن بھر) قلیل اللاحق (کم وقوع پذیر) امراض کا علاج اطباء حضرات احسن طریقہ سے کرنے لگیں تو نہ صرف نام نہاد عاملین کی دکانیں پھیکی پڑجائیں بلکہ ان کی کثیر تعداد عملیات سے توبہ کرلے گی۔
وہ قلیل الوقوع، نامانوس اور کم لاحق امراض "اختناق الرحم ، جنون، حمق، سبات، سبارا، سرسام، سکتہ، سہر، صدع، صرع، غشی(کی مختلف اقسام )، کابوس اور مالیخولیا وغیرہ ہیں"۔
فی زمانہ فاسد ذہنیت کے حامل اور ضعیف العقیدہ افراد دیر طلب یا صبر آزما علاج میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا تو روز بروز طبیب بدلتے رہتے ہیں یا عاملین کی تلاش وطواف میں لگ کر نہ صرف خطیر رقم گنوا بیٹھتے ہیں بلکہ مرض کو لاعلاج مرحلہ اور مریض کو قعرِ مذلّت تک پہونچانے جیسے گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔
اس لئے اطبّاء حضرات (خواہ وہ کسی بھی طریقۂ علاج، کسی بھی پیتھی سے متعلق ہوں) سے درخواست ہے کہ مذکورہ امراض کے سریع التأثیر علاج کی تلاش و جستجو کریں تاکہ عوام الناس امراض کے تعلق سے عاملین کے نرغے میں پھنسنے سے محفوظ ہوسکیں۔
اور عاملیں حضرات سے بھی مؤدّبانہ درخواست ہے کہ اگر کسی مرض کا علاج سمجھ میں نہ آئے تو اپنی انا کا مسئلہ نہ بناکر مریض کو یرغمال نہ بنائیں بلکہ انھیں "فاِمساک بمعروف أو تسریح باِحسان" کے مصداق رخصت کردیں۔ یہ عامل اور معمول دونوں کے حق میں بہتر ہوگا ۔
Comments
Post a Comment