تاریخ و تعارف: مدرسہ عربیہ مصباح العلوم


مدرسہ عربیہ مصباح العلوم، اسونجی بازار، گورکھپور (اترپردیش)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

حامداً و مصلّیاً و مسلّماً۔

یوں تو ضلع گورکھپور کے تحت واقع موضع "اسونجی بازار" پر اس کی ابتداء سے ہی اللّٰہ رب العزت نے اپنی مظہر و منشأ اور مرضی (علم و عرفان) کی بارش کا سلسلہ جاری فرمادیا تھا۔ یعنی { ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ } سے جو حکم صادر فرمایا تھا اس کا کامل و مکمل مظاہرہ اس بستی میں شروع ہوگیا تھا۔ ابتدائی ایام میں انفرادی سطح پر علم دوست افراد و احباب نے اس خدمت کی انجام دہی کا سہرا اپنے سر باندھا، جن میں سر فہرست جناب فخرالحسن صاحب (علم دوستی کی وجہ سے مولوی فخرالحسن کے نام سے جانے جاتے تھے) حافظ ختم اللّٰہ صاحب، حافظ صدیق صاحب اور حافظ عبد اللّٰہ صاحب بھولے پوری تھے (آگے چل کر انہی حافظ عبد اللّٰہ صاحب کے دو صاحبزادے مولانا عبد الحق اور مولانا عبد الباقی صاحب باضابطہ مدرسہ کے مدرس مقرر ہوئے )، یہ حضرات اپنی مصروفیات (پارچہ بافی) سے کچھ اوقات فارغ کرکے اپنے گھر پر ہی بلا معاوضہ بچوں کو پڑھایا کرتے تھے، البتہ اگر کسی نے ہدیۃً کچھ دے دیا تو قبول کرلیتے۔ اور جب آبادی میں اضافہ ہوگیا تو اہل قریہ کو مستقل ادارہ کے قیام کی فکر لاحق ہوئی، چنانچہ 1952ء میں موضع کی مسجد (موجودہ جامع مسجد) کے جنوب مشرق میں تین ڈسمل اراضی حاصل کرکے باضابطہ مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ 

مکتب کے اساتذہ کے طور پر راقم السطور کے نانا حافظ نصر اللّٰہ صاحب، ماسٹر رضا علی صاحب شاہ پور کا تقرر ہوا۔

ابتداءً مدرسہ کا نام "اصلاح العلوم" تجویز ہوا، (یہ نام رکھنے کی الگ سرگزشت ہے) خیر حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی جو اس گاؤں والوں کے پیر و مرشد تھے انہوں نے یہ کہہ کر (کہ اس نام سے جماعت اسلامی کی بو آرہی ہے) نام تبدیل کرکے"مصباح العلوم" رکھ دیا، جس کو سب لوگوں نے بلا چون و چرا تسلیم کرلیا۔




مکتب کی تعلیم بلا درجہ بندی کے عربی، اردو، ہندی اور ریاضی و جغرافیہ پر مشتمل چند کتابوں، چند اساتذہ تک محدود تھی۔ البتہ درس نظامی کی تعلیم باضابطہ و معقول انداز میں ہورہی تھی۔ جس کے لئے جید و باصلاحیت اساتذہ مثلاً: حضرت مولانا عبد الباقی قاسمی صاحب بھولے پوری (تلمیذِ رشید حضرت علامہ انور شاہ کشمیری)، مولانا محمد حنیف قاسمی صاحب فیض آبادی تلمیذ رشید مفسر کبیر مولانا احمد علی لاہوری (جو کہ موضع موسے پور کے تھے مولانا نبیہ محمد صاحب کے برادرِ کلاں)، مولانا محمد مسعود قاسمی صاحب بھلوان والے، مولانا محمد نعیم اللّٰہ قاسمی صاحب بھولے پوری، مولانا عبد الحی صاحب بہاری، حافظ منیر عالم صاحب ساکن پہاڑ پور اور مولانا لعل محمد قاسمی صاحب، ساکن اسونجی بازار وغیرہ منتخب کئے گئے تھے۔ ان کے علاوہ بھی حسبِ ضرورت مختلف علماء کرام و حفاظ عظام کا وقتاً فوقتاً تقرر ہوتا رہا، جن کی فہرست کافی طویل ہے۔


اور مالیات کی فراہمی کے لئے دو ماہر افراد حافظ خیر الوریٰ صاحب ببھنولی پوسٹ مالہن پار نیز ماسٹر اکبر علی صاحب خَیراں پوسٹ چندولی (غیر منقسم ضلع بستی) کا تقرر ہوا۔


سن 1956ء میں مکتب میں ایک استاذ منشی علی رضا صاحب (سبکدوش سرکاری ملازم) ساکن دھریا پار کا تقرر ہوا، انہوں نے مکتب کی تعلیم کی اعدادیہ کے علاوہ پانچ جماعت پر مشتمل درجہ بندی کی۔ اور منشی قمر الدین صاحب ساکن دھریا پار نے درجہ وار طلبہ کے اسماء کے اندراج کا رجسٹر تیار کیا۔ اور اس طرح تعلیم کا معیار بلند ہوتے ہی مدرسہ میں طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ طلباء کی کثرت نیز گاؤں کی آبادی کا تناسب روز افزوں اضافہ پذیر ہونے کے سبب مدرسہ کو وسیع کرنا ناگزیر ہوگیا، اس لئے آبادی کے باہر قبرستان کے مشرق میں دوبارہ وسیع اراضی حاصل کرکے (بطور نشأۃ ثانیہ) سن 1961ء میں سنگ بنیاد رکھی گئی، اور متکلمِ اسلام حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب اعظمی کی زیرِ سرپرستی مدرسہ ترقی کی جانب رواں دواں ہوگیا، اس وقت سے آج تک تعلیمی (اور وقفہ وقفہ سے تعمیراتی دونوں) سلسلہ جاری ہے۔


ضمنی کلام: مدرسہ کی باضابطہ بنیاد رکھے جانے کے بعد سے راقم السطور کے ادارہ ہٰذا میں حصول تعلیم (1952ء تا 1985ء) کے درمیان بہت سے ایسے جید علماء و انتظامی صلاحیتوں کے حامل اساتذہ کرام کا تقرر ہوا جن کا مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار رہا ہے، باوجودیکہ کہ ان کا ذکر نہ کرنا بڑی ناسپاسی ہوگی، مگر ایک مختصر تحریر میں ہر ایک کا تذکرہ کرنا مشکل ہے۔ اگر قدرت نے یاوری کی تو ان حضرات کی خدمات کے اعتراف میں مستقل ایک رسالہ مرتب کیا جائے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔


بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را


البتہ سرِ دست اتنا واضح کردوں کہ بیسویں صدی کی نویں دہائی (1982ء تا 1992ء) میں مولانا جلال الدین صاحب قاسمی، ساکن لچھمی پور بھرگاواں، مہراج گنج اور مولانا شجاع الدین صاحب مظاہری، ساکن پنکھو باری ضلع بستی (مقیم حال: پولی، ضلع سنت کبیر نگر) دونوں حضرات نے تعلیم و تربیت اور تعمیری سلسلہ کو پروان چڑھایا۔ 

اور بیسویں صدی کی آخری دہائی نیز اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں (1993ء تا 2021ء، ان ستائیس سالوں) میں ڈاکٹر منظور عالم صاحب، پرنسپل مدرسہ ہٰذا، ساکن اسونجی بازار نے مدرسہ کی اس تعلیم کو جو کہ درجہ پنجم پرایمری تک تھی اس کو جدید قالب میں ڈھالتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ہائی اسکول تک تعلیم کا انتظام کیا، بلکہ اس کے بعد جو طلبہ و طالبات انٹر کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لئے الحاق کے ذریعے انٹر میڈیٹ کی تعلیم کا بھی انتظام و انصرام کیا تاکہ جو طلبہ و طالبات مدرسہ کے ماحول سے نکل کر کالجز کے ماحول میں داخل ہوجاتے تھے وہ دینی ماحول میں رہ کر اپنی تعلیم کو مکمل کرسکیں۔ اس کے علاوہ تعمیراتی کام کو بھی آپ نے عروج بخشا۔ نیز آپ کی دیگر بہت سی خدمات جلیلہ ہیں جن کو کسی خاص عنوان کے تحت ذکر کیا جائے گا۔ 


عزائم و منصوبے: چونکہ جس طرح علم کا دائرہ وسیع تر ہےاس کو مقید نہیں کیا جاسکتا اسی طرح برائے اشاعتِ علوم جگہ (تعمیرات) کو بھی محدود نہیں کیا جاسکتا، نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ اراضی و تعمیرات کو آج پہلے سے کئی گنا اضافہ کرنے کی سخت ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اور یہ کام محض اللّٰہ تعالیٰ کے فضل اور اہلِ خیر حضرات کی توجہات جمیلہ سے ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے، فللّٰہ الحمد و منہ المستعان و علیہ التکلان۔ 


     الحمد للّٰہ " مصباح العلوم" از روزِ اول تا ہنوز اپنے مقصد کی انجام دہی میں پوری آن، بان و شان کے ساتھ ذمہ دار اساتذہ و اراکین (انتظامیہ) کی نگرانی میں رواں دواں و مصروف عمل ہے۔

اس وقت ادارہ ہٰذا کے فیض یافتہ (ابنائے قدیم) ملک و بیرون ملک دینی و تعلیمی خدمات کی انجام دہی میں مشغول ہیں۔


مصباح العلوم میں: 

*ابتدائی تعلیم اعدادیہ سے ہائر سیکنڈری تک مع دینیات۔ 

*درس نظامی عربی چہارم تک۔

(جو فی الحال بہ چند وجوہ موقوف کر دی گئی ہے)

*حفظ و تجوید۔

*نیز تعلیم نسواں کا دینی و عصری نصاب کے مطابق معقول انتظام ہے۔

(تعلیمِ نسواں کے لئے علیٰحدہ تعمیر کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے۔ جو تکمیل کے لئے ملت کے مخیّرین حضرات کی توجہات کی منتظر ہے۔)

     الحمد للّٰہ ادارہ کی برکت و فیض سے اطراف و جوانب کا ماحول دینی و روحانی بنا ہوا ہے۔

_____________

باز آمدم برسرِ مطلب:

    یہ بات کسی پر مخفی نہیں رہی کہ نہ صرف ہمارا ملک "عظیم بھارت" بلکہ پوری دنیا بقہرِ الٰہی ایک قسم کے مصنوعی و مفروضی جرثومے(Coronavirus COVID-19) کی تباہ کاریوں کا شکار ہوا۔ ملت اسلامیہ ہند کے تعلیمی و تربیتی ادارے (مدارس، مساجد و خانقاہیں اور دعوت و تبلیغ کے مراکز) بھی اس کی زد پر آگئے۔ جس کی وجہ سے آمد و رفت (سفر بغرض فراہمی چندہ) مسدود ہوگیا، نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف مدرسہ ہٰذا کے بلکہ ملک کے تمام مدارس و مکاتب و دیگر رفاہی تنظیموں کے خدام و سفراء کرام 2سال تو شہر در شہر آزادانہ سفر سے قاصر تھے۔ اب جب کہ شہروں اور بازاروں میں رونقیں بحال ہوگئی ہیں تو خسرانِ مالی اور اقتصادی کسادبازاری کی وجہ سے مالیات کی فراہمی میں جہاں احوالِ واقعی حائل ہیں وہیں ملک کے قانون ساز ادارے بھی مدارس (بالخصوص ذرائعِ یافت و آمدن) کو متاثر کرنے کے لئے نت نئے قوانین نہ صرف متعارف کروا رہے ہیں بلکہ نافذ بھی کر رہے ہیں۔ اور یہ بات بالکل واضح اور سب پر عیاں ہے کہ مدارس اسلامیہ کے اخراجات کا انحصار اہل خیر حضرات کے تعاون پر ہی موقوف ہوتا ہے

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار 

کیا مَدرسہ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دَو


  التماس: اہل خیر حضرات سے گذارش ہے کہ اپنے اقرباء و قرب و جوار میں بسے ہوئے حاجت مندوں و مستحقین کی مالی خدمت کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ بالخصوص اپنے اِس محبوب ادارہ "مدرسہ عربیہ مصباح العلوم" کے تعاون کا بھی خاص خیال رکھیں۔ جزاکم اللّٰہ خیراً۔



ان لائن ذریعۂ تعاون 


 



از قلم: ابوالحسنات قاسمی 













Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج