مولانا شبیر احمد ٹانڈوی ایک روحانی شخصیت
مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی نہ صرف یہ کہ ایک روحانی شخصیت تھے، بلکہ زبردست اور ماہر رجال ساز بھی تھے۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
حضرت مولانا شبیر احمد صاحب کا تعلق مردم خیز قصبہ ٹانڈہ ضلع امبیڈکر نگر ( غیر منقسم ضلع فیض آباد) سے تھا۔
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا رحم اللّٰہ صاحب حضرت چاند شاہ صاحب کے خلفاء میں سے تھے۔ اور اس روحانی خانوادہ ( مشہور زمانہ ولئ کامل) بدر الملّۃ والدّین حضرت محمد چاند شاہ صاحب سے بہت ہی خاص قرابت داری تھی۔ اس قرابت داری و نسبت کی وجہ سے آپ (مولانا شبیر احمد صاحب) کے اندر بھی چاند شاہی خصوصیات بہت ہی نمایاں اور واضح تھیں۔
آپ مسترشدین و ارادت مندوں کے حلقہ میں "پیٖر صاحب" کے نام سے مشہور تھے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم قصبہ ٹانڈہ (ضلع فیض آباد) میں ہی ہوئی، تکمیل علوم کے لئے مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، فراغت کے بعد بغرض اصلاح باطن اپنے استاذ خاص حضرت مولانا اسعد اللّٰہ صاحب مظاہری، ناظم مظاہر علوم، سہارنپور کی خدمت میں مزید ایک سال گزارا، حضرت سے خلعتِ خلافت و اجازتِ بیعت حاصل ہونے کے بعد اپنے وطن واپس آئے۔ اور اخیر دم تک تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ اصلاح و ارشاد کا شغل برقرار رکھا۔
کشفِ احوال و بصیرت: حضرت صاحبِ کشف و کرامت شخصیت کے مالک تھے۔
ان کے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات ہیں، ایک مختصر تحریر میں ان کا احاطہ کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مناسب۔ پھر بھی دو اک واقعہ بطور تذکرہ و نمونہ رقم کیا جارہا ہے۔
اسونجی گاؤں میں مسجد کی شرقی جانب ایک میدان ہے، بروز جمعرات ہفتہ واری بڑا بازار لگتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر نکلے، آپ کے ہمراہ کچھ لوگ تھے، آپ نے بازار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ آسیب زدہ ہے، آباد نہیں ہوسکے گا تا آنکہ ان (جناتوں) کا انخلاء نہ کردیا جائے۔ چنانچہ بازار کی حدود کے باشندگان اب بھی مختلف قسم کے حالات کے شکار رہتے ہیں، کئی مکانات تو ویراں و برباد ہوگئے، ان کے مکینوں نے بھی کہیں اور پناہ لے لی۔
ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر نکلے، اجابت و قضائے حاجت کے لئے مسجد سے مشرقی جانب جارہے تھے، وہاں میدان میں کھلیان تھے، دائیں ہوئے (چلے ہوئے، گاہے ہوئے اناج) کا ڈھیر لگا ہوا تھا، آپ نے ادھر دیکھا تو ہنسنے لگے، ہمراہیوں نے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ ایک لنگڑا جن اناج کے ڈھیر میں سے چوری کر رہا تھا، ہم لوگوں کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی اور گرگیا۔
خیر اس طرح کے بہت سے واقعات حضرت سے متعلق ہیں۔
آپ کے متعلق مکمل و دلچسپ معلومات کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انتہائی اختصار کے ساتھ حضرت چاند شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی روحانی زندگی پر بھی روشنی ڈال دی جائے، اس سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ آپ چاند شاہی فیوض و برکات سے کس قدر مستفیض و آراستہ تھے، چاند شاہی روحانیت نے آپ پر کتنے گہرے اثرات و نقوش چھوڑے تھے۔
حضرت چاند شاہ صاحب:
تیرہویں صدی ہجری کے اواخر کا دور ہے، جس وقت کہ بھارت میں مسلمانوں کی حکومت زائل ہوچکی تھی، مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوچکا تھا، جس وقت کہ (مغربی اترپردیش کے مضافات، بالخصوص) گنگوہ اور اس کے اطراف و اکناف میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمہ (م 1323ھ) کی درسگاہ و خانقاہ کا علمی و روحانی فیضان جاری تھا، دیوبند میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نیز حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ (م 1297ھ) کے تلامذہ و متوسلین دارالعلوم کی شکل میں دینی علوم کا مرکز تعمیر کرنے میں مصروفِ کار تھے، اور گنج مرادآباد میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن صاحب نور اللّٰہ مرقدہ (م 1313ھ) مرجعِ خاص و عام و مرکزِ ہدایت بنے ہوئے تھے۔ اِنہی دنوں میں (مشرقی اترپردیش، بالخصوص) ٹانڈہ ضلع فیض آباد (موجودہ امبیڈکر نگر) کے ایک گوشہ محلہ سکراول (میاں کا باغیچہ) میں ایک بزرگ و طاقتور صاحبِ نسبت شخصیت نورِ معرفت، سوزِ محبت اور حرارتِ ایمانی کی دولت لٹا رہی تھی، ان کی روحانیت اس قدر پُر تاثیر تھی کہ جو شخص یا جو علاقہ ان کی نگاہ میں آگیا وہ بدعات و خرافات سے پاک ہوکر سنّت و شریعت کے نور سے منور ہوکر جگمگا اٹھا۔ یہ بزرگ بدرالملۃ والدین حضرت محمد چاند شاہ قدس سرہ تھے۔
حضرت چاند شاہ صاحب کا روحانی سلسلہ چند واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے جا ملتا ہے۔
حضرت چاند شاہ صاحب کے شیخ و مرشد حضرت مولانا سید ابوالحسن صاحب نصیر آبادی تھے اور ان کے شیخ و مرشد حضرت مرزا مظہر جان جاناں تھے اور ان کے شیخ و مرشد حضرت شیخ سید نور محمد بدایونی تھے اور ان کے شیخ و مرشد حضرت شیخ حافظ محمد حسن صاحب تھے اور ان کے شیخ و مرشد حضرت شیخ سیف الدین سرہندی تھے اور ان کے شیخ و مرشد حضرت شیخ محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ تھے اور ان کے مرشد حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی تھے (رضوان اللّٰہ تعالیٰ و رحمتہ علیہم اجمعین)۔
حضرت چاند شاہ صاحب کا ایک اور بھی سلسلۂ خلافت و بیعت ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ کو مجھوا میر (تپہ اجیار) ضلع بستی کے باشندہ حضرت مولانا جعفر صاحب (بانی مدرسہ "ہدایت المسلمین" کرہی، قائم کردہ 1844ء) سے اجازت حاصل تھی اور ان کو حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ سے۔
باز آمدم برسرِ موضوع:-
چلتا پھرتا مدرسہ: اگر یہ کہا جائے کہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب چلتا پھرتا مدرسہ تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ دوران سفر بھی پڑھایا کرتے تھے، ان کے ساتھ سفر میں ہمیشہ چار پانچ طلباء رہا کرتے تھے، جہاں جاتے ساتھ ساتھ لے جاتے، اکیلے ہی فارسی اول تا چہارم، شرح جامی و شرح وقایہ وغیرہ کتب پڑھایا کرتے تھے۔
آپ کا اصلاحی سفر ٹانڈہ سے شروع ہوتا، بھولے پور، ہنسور، نریاؤں پرانی بازار ہوتے ہوئے گھاگھرا ندی (بذریعہ کشتی) پار کرکے دھن گھٹا (سنت کبیر نگر) کے اطراف کی کچھ بستیوں میں قیام کرتے ہوئے اسونجی بازار آجاتے تھے۔ (آپ جس کسی بستی میں قیام کا ارادہ کرتے تو وہاں کی مسجد میں ہی قیام کرتے، یہ طریقہ حضرت چاند شاہ صاحب کے خانوادے میں اب بھی چلا آرہا ہے۔) اسونجی بازار میں ہفتہ یا عشرہ قیام کے بعد ببھنولی، مالہن پار اونچیر، گجپور اور بھلُووان ہوتے ہوئے کبھی شاہ پور اور کبھی برہل گنج ہوتے ہوئے پھر گھاگھرا ندی پار کرکے جین پور، انجان شہید، نور الدین پور (نور الدین پور میں آپ کے خاندان کے ایک صاحب کی مزار بھی ہے، بغرض اصلاح وہاں قیام پذیر تھے، طاعون کا زمانہ تھا، بیمار ہوئے اور جان بر نہ ہوسکے، وہیں تجہیز و تکفین کا عمل انجام پایا) چاند پٹی، کَرمَینی ہوتے ہوئے بِلریا گنج کے راستے بَسکھاری فیض آباد (موجودہ امبیڈکر نگر) ہوتے ہوئے ٹانڈہ پہنچ جاتے۔ یہ مذکورہ بستیاں مرکزی حیثیت رکھتی تھیں، ان میں سے جس بستی میں وارد ہوتے اس میں پانچ، سات روز قیام کرتے، صبح کے وقت آس پاس کی بستیوں میں جاکر اصلاحی بیانات کرتے، بیعت و ارشاد کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ بقیہ اوقات میں اپنے ہمراہی طلبہ کو درس دیتے تھے۔
اسونجی بازار میں قائم 'مدرسہ عربیہ مصباح العلوم' میں درس نظامی کے امتحان کے لئے بھی اکثر آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔
اسونجی بازار جب آپ کا ورود مسعود ہوتا تو کم از کم دس روز قیام رہتا۔ گاؤں میں یگ گونہ خوشی کا ماحول ہوتا، فضاء روحانیت سے پُر رہتی۔ اطلاع موصول ہونے پر اطراف کی بستیوں سے لوگ زیارت و حصول برکت کے واسطے پروانہ وار آتے۔ اور ویسے بھی حضرت والا کا آس پاس کی بستیوں (ببھن پورہ، ٹھاٹی، برولی، بَرلا، اتیسا وغیرہ کسی نہ کسی بستی) میں پند و موعظت کے لئے روزانہ پروگرام رہتا، لوگ آپ کا والہانہ استقبال کرتے، پرتکلف دعوتیں ہوتیں، ان کے ساتھ اسونجی کے ان کے قریبی رفقاء بھی شریک دعوت رہتے۔ اُن رفقاء میں راقم الحروف کے دادا جان (وجیہ اللّٰہ مرحوم) بھی رہتے تھے۔
حضرت محمد چاند شاہ صاحب کے خانوادے کے روحانی فیوض وبرکات کی ہی دین ہے کہ یہ بستی شرک و بدعات اور جاہلی رسوم و خرافات سے محفوظ اور پاک ہے۔ چنانچہ یہاں مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں یا دعوت و تبلیغ کی غرض سے یا دیگر کسی پروگرام کے موقع پر اتفاقاً اگر کوئی روحانی شخصیت وارد ہوتی ہے تو اسے برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس بستی میں کسی بڑی روحانی شخصیت کا فیض جاری و ساری ہے۔
نبیرۂ چاند شاہ صاحب مولانا ظہور الحسن صاحب (صاحب زادۂ حبیب شاہ صاحب) اور مولانا محمد محسن صاحب پڑپوتے چاند شاہ صاحب۔ اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحب نیز ان کے برادر مولانا جمیل احمد صاحب اور ان کے خانوادے کے دیگر اہل باطن حضرات کا مسلسل اسونجی بازار میں بغرض اصلاح و بیعت و ارشاد ورودِ مسعود ہوتا رہا ہے، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دو دہائی قبل حضرت مولانا شبیر احمد صاحب کے خواہر زادہ مولانا محمد عمر صاحب یہاں آیا کرتے تھے، کسی وجہ سے انہوں نے دوست پور ضلع سلطان پور میں مستقل سکونت اختیار کرلی، اب ان کے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی صاحب کی آمد و رفت ہوتی رہتی ہے۔ عالمی وباء (کورونا وائرس، 2019ء) کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سے مولانا محمد علی صاحب کا آنا جانا بھی موقوف ہو چکا ہے۔
ازدواجی زندگی: حضرت مولانا (شبیر احمد صاحب) کا پہلا عقد مسنون ٹانڈہ میں ہی ہوا تھا۔
پہلی زوجہ محترمہ کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد آپ کا عقد ثانی گورکھپور شہر کے محلہ قاضی پور خورد کمہاروں کے گھر کے سامنے ایک کمپاؤنڈر صاحب کی صاحبزادی سے ہوا۔ اس عقد کے بعد حضرت کا زیادہ وقت گورکھپور میں ہی گزرتا تھا۔
آپ کے وسیع تر اصلاحی حلقہ جات میں ہزاروں آدمی آپ کے شرف بیعت اور فیضانِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
تجہیز وتکفین اور تدفین: حضرت کی تجہیز و تکفین کے امور کی انجام دہی میں گورکھپور کے مشہور معالج و روحانی شخصیت حکیم وصی احمد صاحب اور اسونجی بازار کے حاجی رمضان صدیقی صاحب بھی شریک تھے، غسل کے دوران بھی حضرت کی پیشانی پر پسینہ دیکھ کر حکیم صاحب نے فرمایا کہ "ہم لوگ حضرت مولانا کی شخصیت کو کما حقہ پہچان نہ سکے اور نہ ہی کما حقہ قدر کرسکے۔ حضرت تو در حقیقت شہادت کے درجہ پر فائز ہیں، اس لئے کہ فرمانِ باری تعالیٰ (ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللّٰہ اموات بل احیاء) کے مطابق راہ خدا میں زندگی کو قربان کرنے والے مردہ نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں، حضرت کی پیشانی پر پسینہ ان کی شہادت کی علامت ہے، اور حضرت نے اپنی پوری زندگی احیاء سنت، اِحقاقِ حق و اِبطالِ باطل (جو در حقیقت راہِ خدا ہے) میں گذار دی"۔
کس کی نظر پڑے گی اب 'عصیاں' پہ لطف کی
وہ محرمِ نزاکتِ عصیاں چلا گیا
حضرت کا انتقال پُرملال 1965ء میں گورکھپور شہر میں ہوا۔ گورکھپور کی ہی قبرستان بُھوا شہید میں آسودۂ خاک ہیں۔
اب دُوٗر جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
ابوالحسنات قاسمی
Comments
Post a Comment