ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری
نسل نو کی امنگوں کا ترجمان شاعر، ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری
شعر گوئی ایک ایسا فن ہے جس کی ابتداء کرۂ ارض پر وجود درج کرانے والے اوّلِ فردِ ابو البشر (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوتی ہے، اور اختتامِ کائنات تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
ابتدائے آفرینشِ جہاں سے تا ہنوز دنیا میں بولی جانے والی (بین الاقوامی، قومی و علاقائی) تمام ہی زبانوں میں (حمد، نعت، نظم غزل، مرثیہ، منقبت۔ نیز آزاد و تحت اللفظ غرض کہ) شعر و سخن کی سبھی اصناف میں لاتعداد شعرائے کرام نے طبع آزمائی کی ہے، اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
مشرقی اترپردیش کے تاریخی شہر گورکھپور سے بھی اَن گِنت شعراء و ادباء آسمان علم و ادب پر چمکے ہیں۔ نہ صرف انہوں نے اپنا سر و قد بلند کیا بلکہ گورکھپور کو بھی تابانی بخشی۔
ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جن کا تعلق آبائی طور پر سرزمینِ گورکھپور سے تھا اور کچھ دیگر بلاد و اضلاع اور ریاست سے متعلق تھے مگر اس شہر میں قیام و سکونت پذیر اہلِ علم و ادب کے سامنے شعر و سخن کی نوک و پلک درست کرنے، زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے لئے وارد ہوئے تھے، اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہجرت اختیار کی۔ جن کی منجملہ و مجموعی فہرست اس طرح ہے:
مہدی افادی، ریاض خیرآبادی، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ہندی گورکھپوری، پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر احمر لاری، پروفیسر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللّٰہ خان، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ملک زادہ منظور احمد، ماسٹر احمر گورکھپوری، عمر قریشی، دہلی میں مقیم پروفیسر عبد الحق،
پروفیسر محمد شاہد حسین، علیگڑھ میں پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر قاضی جمال حسین، جئے پور راجستھان میں پروفیسر فیروز احمد،اجین، مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر غلام حسین، لکھنؤ میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور ڈاکٹر سید اکبر علی بلگرامی۔ ان حضرات کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے گورکھپور کی علمی و ادبی سرزمین سے وابستہ رہا ہے۔
یہ سب کے سب یکتائے زمانہ و نابغۂ روزگار تھے، بلکہ بے جا نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ یہ حضرات دنیائے شعر و شاعری اور علم و ادب کے اقطاب و ابدال تھے۔
باز آمدم برسرِ مطلب! تحریر کا مقصد گورکھپور شہر کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر و ناظمِ مشاعرہ 'ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری' کا مختصر تعارف ہے۔
بہتر ہوگا کہ پہلے موصوف کی تعلیمات پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔
ابتدائی تعلیم سنگی مسجد گورکھپور و مسجد بابر علی شاہ میں، درجہ حفظ مدرسہ جامعہ اسلامیہ فریندہ میں پڑھا۔
کچھ عرصہ دارالعلوم اسلامیہ بستی و مدرسہ ابوبکر صدیق ترکلوا تیواری ضلع مہراج گنج میں،
نیز 2009ء کے کچھ ماہ دارالعلوم ندوہ میں درجہ تجوید و قراءت کے شعبہ میں گزارا۔
منشی و مولوی نیز عالم کے امتحانات انجمن اسلامیہ، خونی پور، گورکھپور سے پاس کیا اور ہائی اسکول و انٹر اور بی ای ایم ایس پٹنہ بہار سے۔
شعر و شاعری کی ابتداء:
زمانۂ طالب علمی سے ہی نعت و غزل خوانی کا شوق تھا، یہ شوق و ذوق رفتہ رفتہ شعر گوئی تک پہنچ گیا۔ اب ضرورت تھی کسی قابل و کہنہ مشق استاذ کی جس کی نگرانی میں کلام کی نوک و پلک کو استوار کیا جائے، استاذ کی تلاش و جستجو نے انہیں اردو ادب کے گہوارہ سرزمین لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے جناب فاروق جاذب لکھنوی کی دہلیز پر پہنچا دیا۔
دلشاد گورکھپوری اکابر شعراء کی نظر میں:
بجائے اس کے کہ میں موصوف کے متعلق خامہ فرسائی کروں، اور قارئین کو لاف زنی کا گمان ہو بہتر ہوگا کہ ان کے متعلق ان کے متعارف شعراء و اساتذہ کے اظہارِ خیال کے شذرات الذہب کو ہی پیش کردوں۔
چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد صاحب موصوف دلشاد گورکھپوری کے شعری مجموعہ "نغماتِ دلشاد" پر مقدمہ لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں: "ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ملک کے ادبی نقشہ پر فراق اور مجنوں کی موجودگی کے باعث گورکھپور کا نام بہت زیادہ نمایاں اور ممتاز تھا، اور ایک پوری نسل تھی جو ان کے زیرِ سایہ شعر و ادب اور علم و دانش کے حوالہ سے اپنے ادبی سفر کو جاری رکھے ہوئے تھی۔" کچھ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں"آنے والی نسل بزرگوں کی ادبی اور شعری امانت کو سنبھالے ہوئے ہے اور اپنی سطح سے شعر و ادب کی خدمت گزاری کر رہی ہے، اسی نسل میں زیر نظر مجموعہ کے خالق جناب دلشاد گورکھپوری بھی ہیں، جو بزرگوں کی اس شعر و ادب کی روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک نعتیہ کتابچہ شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے، اور اب زیر نظر مجموعہ 'نغماتِ دلشاد' اشاعت کے مرحلوں سے گزر رہا ہے"۔ مزید لکھتے ہیں "مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ان کے کلام میں وہ خوبیاں موجود ہیں جو اگر مشق و ریاض اور مطالعہ سے سرفراز ہوتی رہیں تو ان کی شاعری کی انفرادیت اور بھی زیادہ نکھر کر سامنے آئے گی اور ان کا شمار گورکھپور کے اہم شعراء میں ہوگا "۔
نمونہ کلام:
حالات نے کس موڑ پہ پہونچا دیا مجھ کو
خاموش ہوں اور ظلم و ستم دیکھ رہا ہوں
فن سے بھی انحراف کئے جارہیں ہیں لوگ
پھر بھی سخن کی داد دئے جارہیں ہیں لوگ
کیا پیاس میں گناہ کا احساس مر گیا
مئے ہے حرام پھر بھی پئے جارہیں ہیں لوگ
دلشاد گورکھپوری کے مجموعۂ کلام 'نغمات دلشاد' پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر انور جلال پوری اس طرح سرخی لگاتے ہیں "یہ بچہ لڑکھڑائے گا تو چلنا سیکھ جائے گا"۔
پھر آگے لکھتے ہیں " اس وقت میں جس نوجوان شاعر کی شاعری پر اظہارِ خیال کرنے جا رہا ہوں اس کا تعلق مشرقی یوپی کے زرخیز اور مردم خیز شہر گورکھپور سے ہے۔ جس کی ڈیڑھ دو سو برس کی تاریخ ادبی ستاروں کی چمک سے روشن ہے۔ عظیم شخصیتوں کی صحبت کاملہ، ان کے کلام کا مطالعہ تو نئی نسل کو فائدہ پہنچاتا ہی ہے، لیکن ان شخصیتوں کی پرچھائیاں تک بھی اہل علم اور اہل ذوق کے لئے مفید ثابت ہوا کرتی ہیں۔ جناب دلشاد گورکھپوری ایک ایسے ہی نوجوان شاعر ہیں جنہیں اساتذہ کے کلام کے مطالعہ کا شوق تو ہے ہی مگر ان کا یہ ذوق بڑا قابل قدر ہے کہ وہ صاحبِ علم حضرات کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں"۔
جناب ڈاکٹر انور جلال پوری صاحب موصوف کے متعلق مزید لکھتے ہیں:
"صالح فکر اور پرخلوص جذبات سے معمور دلشاد گورکھپوری کا پہلا شعری مجموعہ 'نغماتِ دلشاد' پیش نظر ہے، غزلوں کے مطالعہ سے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ دلشاد غزل کے مزاج اور اس کی فطرت سے بخوبی واقف ہیں اور اس کو انسانی جذبات اور احساسات کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مجموعہ میں حمد و نعت بھی شامل کی گئی ہیں، اس کے علاوہ قطعات بھی شامل مجموعہ ہیں۔ عزیزی دلشاد گورکھپوری ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں، ان کے معیار کلام کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان میں فکری صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس حوالے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کی فکر نے کافی بلندیوں پر پرواز کی ہے۔ زبان دانی و شعری خوبیوں سے آراستہ ان کا مجموعہ کلام یقیناً قابل ستائش ہے"۔
نعت گوئی کی نزاکت: نعت گوئی ایک انتہائی نازک صنفِ سخن و شاعری ہے، اس باب میں مجالِ سخن آرائی ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں، اس لئے کہ تلمیحات و اشارات اور تشبیہات و استعارات نیز کنایات میں ذرا سی لغزش اور چوٗک سے ایمانیات پر خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ نعت گوئی کی نزاکت سے متعلق مشتے نمونہ از خرواری چند بلند پایہ شعراء عظام کے کلام پیش کر رہا ہوں جن سے اس صنف سخن کی نزاکت و اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فارسی کے شاعر جناب عزت بخاری فرماتے ہیں:
ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
اور فارسی و اردو کے مشترکہ و عظیم شاعر مرزا اسد اللّٰہ خان غالب کہتے ہیں:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
یا جیساکہ فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر جناب ہمام الدین علاء تبریزی فرماتے ہیں:
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست
بہر حال! نعت گوئی کی نزاکت و اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اتنے اقتسابات و حوالے کافی ہیں۔
خیر! اس قدر خطرات کے باوجود آقائے نامدار صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جناب دلشاد کی عقیدت و فرط محبت نے اس میدانِ نازک میں قدم رکھنے اور بارگاہِ رسالت مآب میں گلہائے عقیدت پیش کرنے پر مجبور کر ہی دیا، چنانچہ انتہائی احتیاط کے ساتھ افراط و تفریط نیز غلو سے پاک کلام کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
جیسا کہ موصوف کے نعتیہ مجموعہ "گلدستۂ نعت" پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر انور جلال پوری لکھتے ہیں:
"نعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے میدان میں بھی انہوں نے بہت سنبھال کے قدم رکھا ہے، اور اپنی نعتیہ شاعری سے سامعین کو محظوظ بھی کیا اور متأثر بھی کیا ہے، وہ بڑی پرکشش آواز کے مالک ہیں، سامعین کی پسند بن جانے کا ہنر بھی انہیں معلوم ہے"۔
نعتیہ کلام کا نمونہ:
نسبتِ شاہِ امم کا حق ادا کرتے رہو
دوستو ان کے صحابہ سے وفا کرتے رہو
بالیقیں حقدار تم فردوس کے ہوجاؤ گے
شرط یہ ہے اتباع مصطفی کرتے رہو
خلد کا نظر آیا راستہ مدینے میں
مجھ کو مل گیا اپنا مدعا مدینے میں
تم درود پڑھ لینا اور سلام کہہ لینا
روضئہ نبی کو جب دیکھنا مدینے میں
اکتسابِ فیض: دلشاد گورکھپوری نے جن شعراء کرام سے فیض حاصل کیا، ان میں سرِ فہرست جناب فاروق جاذب لکھنوی ہیں، ثانوی درجہ میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، ڈاکٹر کلیم قیصر۔
چنانچہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب نغماتِ دلشاد کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں "یہ ان کی خوش بختی ہے کہ انہیں دبستان لکھنو کے معروف شاعر جناب جاذب لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل ہے، اور یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جب گردوپیش میں بکھری ہوئی سماجی اور سیاسی ناہمواریاں دبستانِ لکھنو کی فنی خراد پر چڑھ جاتی ہیں تو ان کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے"۔
وصفِ کلام: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب ان کے اندازِ تغزل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں "چونکہ دلشاد کی تعلیم جو کچھ بھی رہی ہے وہ مذہب کے حوالہ سے ہوئی ہے اس لئے ان کے کلام میں جگہ جگہ اعلیٰ و ارفع قدریں جو تمام عالم انسانیت کی میراث ہیں نمایاں ہوتی ہیں، اور ان کی شاعری کوایک نگار خانۂ رقصاں بنادیتی ہیں جو نہ صرف پاکیزہ اور طاہر ہوتا ہے بلکہ تمام عالم میں انہیں اعتبار بھی حاصل ہوتا ہے"۔
دلشاد گورکھپوری نے جناب جاذب لکھنوی صاحب سے شعر و ادب کی حصولِ اصلاح اور اکتسابِ فیض کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت سے استفادہ کیا اور جن کی نگرانی میں اپنے فکر و فن اور شعر و ادب کی نوک و پلک کو سنوارا وہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب ہی ہیں۔
بطور استشہاد ملک زادہ صاحب کی محبت میں لکھے ہوئے جذبات سے لبریز کلام پیش ہیں۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دلشاد صاحب کو ملک زادہ صاحب سے کس قدر تعلقِ خاطر ہے۔
نازشِ انجمن ملک زادہ
ماہرِ علم و فن ملک زادہ
ذہن پر نقش بن کے ابھرے ہیں
آبروئے سخن ملک زادہ
شغلِ مسیحائی: دلشاد گورکھپوری صاحب ایک ہومیوپیتھی شفاء خانہ سے مربوط ہوکر خدمت خلق کی انجام دہی میں مصروفِ کار ہیں۔ طبی علاج و معالجہ کا طریقہ کار آپ نے قصبہ کِراکت، ضلع جونپور کے مشہور روحانی و طبّی (ہومیوپیتھی) معالج جناب ڈاکٹر بہادر علی خان صاحب سے حاصل کیا۔
قلمی کارنامہ: دو عدد کتابیں آپ کے گہر بار قلم سے مِنصّۂ شہود پر آچکی ہیں۔
1) گلدستۂ نعت
2) نغمات دلشاد
نظامت مشاعرہ: مشرقی اترپردیش کے مختلف اضلاع میں مدارس اسلامیہ کی جانب سے منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں نعت خوانی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا، یگ گونہ مناسبت ہوجانے کے بعد دوست و احباب کی فرمائش و اصرار پر نظامت پر آمادہ ہوئے، حسن اتفاق کہ اسی درمیان ڈاکٹر افروز عالم صاحب مقیمِ حال کویت سے سابقہ پڑگیا اور ان کی ایک ہی مہمیز نے نظامت مشاعرہ و جلسہ تک پہونچا دیا۔
مختصر یہ کہ 2013ء سے مشاعرے کا آغاز کیا، جب کہ 2018ء سے نظامت کا میدان میں قدم رکھا۔
ابھرتے ہوئے ناظم مشاعرہ:
مشاعروں میں نظامت کی حیثیت ایک مرکزی ستون کی ہوتی ہے۔ بلکہ بعض ادیبوں کے خیال کے مطابق تو مشاعروں میں نظامت کو چوتھے ستون کا درجہ و حیثیت حاصل ہے۔
خیر! دلشاد گورکھپوری صاحب نہ صرف یہ کہ ایک اچھے، برجستہ گو، نوجوانوں کے دلوں کے ترجمان شاعر ہیں بلکہ ایک عمدہ ترین ناظم مشاعرہ و جلسہ بھی ہیں۔
فی الوقت ان کی نظامت کا سلسلہ ملک سے نکل کر بیرون ملک (خواہ پڑوسی ملک نیپال ہی سہی) تک پہنچ گیا ہے، اس اعتبار سے اب موصوف کو بین الاقوامی سطح کے ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اسی طرح سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جائے گا اور آپ کی حیثیت کو چار چاند لگتے جائیں گے، جس کے نتیجے میں ان شاء اللّٰہ ترقی یافتہ ممالک کے مشاعروں میں بھی شرکت و نظامت کے فرائض کی انجام دہی مستبعد نہیں۔
غرضیکہ ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری ایک شاعرِ محض ہی نہیں بلکہ اکابر شعراء گورکھپور کی ادبی روایات کے امین، پاسبانِ شعر و ادب اور ایک ابھرتے ہوئے ایسے ہنروَر ناظمِ مشاعرہ بھی ہیں جو بکھرے ہوئے مجمع کو مجتمع کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، اور یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ موصوف اپنی خوش گلوئی، خوش اِلحانی اور لحنِ داؤدی نیز مسرور و مسحور کُن مترنّم آواز کے ذریعے ایسا سما باندھ دیتے ہیں کہ جس سے مشاعرہ یا جلسہ گاہ سے بے زار ہوکر رخصت ہوتے ہوئے سامعین میدانِ پروگرام میں واپس لَوٹنے پر مجبور ہوجایا کرتے ہیں۔ بہر حال یہ سب صفات صرف کسبی ہی نہیں ہیں بلکہ وہبی و خدا داد عطیہ ہیں۔
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میری نہ صرف دعاء بلکہ تمنا ہے کہ اللّٰہ رب العزت جناب ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری صاحب کو نظامت کے حوالے سے گورکھپور کے مشہور ناظمِ مشاعرہ جناب عمر قریشی صاحب کے زمرے کا شاعر بنادے۔ "وما ذالک عل اللّٰہ بعزیز"۔
اب یہاں ضرورت ہے جناب عمر قریشی صاحب سے متعلق معلومات و واقفیت کی، تو لگے ہاتھوں بہتر ہوگا کہ جناب عمر قریشی صاحب کی نظامت کے متعلق دوچار سطریں مسطور کردی جائیں۔ مختصراً یہ کہ عمر قریشی صاحب کی نظامت کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ وہ شاعروں کا تعارف انکے شہروں کے حوالے سے کراتے تھے۔ جتنی دیر میں مدعو شاعر اسٹیج سے مائیکروفون پر پہنچتا اتنے وقفہ میں عمر صاحب اس شاعر کے شہر کے جغرافیہ اور تاریخ پر بھرپور روشنی ڈال چکے ہوتے۔ ہر شہر کی ادبی تاریخ ان کے زبان پر ازبر ہوتی تھی۔ اور جب شاعر مائیکروفون سے رخصت ہوکر اسٹیج پر جاتا تو اس کے کہے ہوئے کلام کے ردیف و قافیہ کے وزن کے چند اشعار سامعین کو گوش گزار کردیتے۔
ابوالحسنات قاسمی
Comments
Post a Comment