الزائیمر ایک سنگین مرض
تحریر: ابوالحسنات قاسمی
الزائیمر یا ڈیمینشیا ایک خطرناک (دماغی) مرض
بعض امراض و اسقام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بہ سبب ظاہر و لاحق ہونے والی کیفیات آسیبی حرکات سے مماثل و متشابہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک مرض الزائیمر بھی ہے۔
الزائیمر یا ڈِیمینشِیا، ادراکی ترقی کے سنگین نقصانات کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خرابی ضعیفی (65 سال سے زائد عمر کے افراد) میں پائی جاتی ہے۔ لیکِن اس کے علاوہ یہ خرابی کچھ دیگر حالات میں پہلے سے ناقابِل افراد میں بھی پائی جا سکتی ہے۔
الزائیمر بیماری کا سَب سے عام قسم ڈیمینشیا ہے۔ الزائیمر بیماری غیر متغیر اَور ترقی پذیر دماغی بیماری ہے، جو کہ آہستہ آہستہ نہ صرف یہ کہ یاد اَور سوچنے کی صلاحیت کو مفقود کر دیتی ہے بلکہ اوہام و وساوس کو بھی جنم دیتی ہے۔ آخرکار یہ بیماری روز مرہ کی زندگی میں ہونے والے آسان کام کو پُورا کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ حالانکہ، سائنس داں مسلسل الزائیمر بیماری کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں، لیکِن وہ ابھی تک اس بیماری کے وجود پذیر ہونے کے عین مطابق وجوہات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کر پائے ہیں۔اس طرح یہ اِڈِیوپیتھِک مرض ہے ۔ ڈی ایس ایم پانچ
The Diagnostic and Statistical Manual of Mental
Disorders, Fifth Edition {DSM-5}
نے الزائیمر بیماری کی فرہنگ میں تبدیلی کی ہے۔اس بیماری کی وجہ خاص یا ہَلکا نیورو ادراکی خرابی بھی ہوتی ہے۔
اسباب کیا ہیں؟ طبی ماہرین کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی قلت سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائیمر اور ڈیمینشیا جیسے مرض کا سبب بنتی ہے ۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
الزائیمر کے سبب لاحق ہونے والے نسیان یا یادداشت کی کمی کی نوعیت منفرد و جداگانہ ہوتی ہے، اس کا مریض کبھی کبھی خیالاتِ مختلفہ کے ہجوم میں ایسا محو و سرمست ہوجاتا ہے کہ اس کا خیال منتشر ہوکر امورِ اصلیہ کی انجام دہی سے منحرف ہوجاتا ہے،نتیجتاً وہ کچھ کا کچھ کربیٹھتا ہے ۔ مشتے نمونہ از خروارے کچھ واقعے پیش ہیں۔
علی گڑھ میں ایک ڈاکٹر صاحب رہتے تھے 'ضیاء الدین احمد زبیری' ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور تھا کہ وہ ایک دن سونے کے لیے کمرے میں گئے، اپنی چھڑی کو بستر پر لٹا دیا اور خود دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر سو گئے، نیند پوری کر کے بیدار ہوئے تو خود کو دروازے کے ساتھ اور چھڑی کو بستر پر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ( ماخوذ)
اخبار 'جنگ' کے کالم نگار اطہر شاہ خان کے 24، ستمبر 2009ء کے کالم کی وساطت سے اسی طرح کا ایک اور واقعہ باصرہ نواز ہوا۔
خان صاحب رقم طراز ہیں کہ "شوپنہارایک غائب دماغ فلسفی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کو گھر واپسی پر اپنی چھڑی اپنے بیڈ روم کے بستر پر لٹا کر خود کمرے کے کونے سے ٹک جایا کرتے تھے۔"
آگے لکھتے ھیں کہ شوپنہار اور ان کی چھڑی کے بارے میں ایک عجیب عادت بھی بہت مشہور ہے کہ وہ جب شام کی سیر کیلئے چھڑی ہاتھ میں لئے گھر سے نکلتے تو کافی دور تک جایا کرتے تھے اور وہ دو میل دور ایک چوراہا آنے پر اپنے گھر واپسی کے لئے تھکے ماندے پلٹتے تھے،اس سڑک پر دونوں جانب چند قدموں کے فاصلے سے قدیم درخت تھے اور شو پنہار کی منفرد عادت تھی کہ جاتے ہوئے ہر درخت کو ہلکی سی چھڑی رسید کرتے تھے اور واپسی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا، ایک شام وہ تھکے ہارے واپس آئے تو چھڑی بستر لٹا کر خود کونے میں کھڑے ہوتے ہوتے رک گئے ۔ اچانک انہیں یاد آیا کہ چوراہے سے پلٹنے سے پہلے وہ آخری درخت کو چھڑی مارنا بھول ہی گئے تھے، وہم اگر کسی فلسفی کو ہو تو بالکل ہی لا علاج ہوتا ہے چنانچہ شو پنہار پھر دو میل دور اس درخت کو چھڑی مارنے کے لئے دوبارہ گھر سے نکلنے لگے تو شدید بارش شروع ہوگئی مگر فلسفی ایسی مشکلات کی پرواہ کرنے لگیں تو تاریخ، فلسفہ میں ان کا نام کیسے آئے چنانچہ شو پنہار نے ایک طشلہ اپنے سر پر رکھا اور چھڑی اٹھاکر روانہ ہوگئے، جاتے ہوئے وہ حسب عادت ہر درخت کو چھڑی مارتے گئے پھر اس موڑ والے آخری درخت کے پاس آکر انہوں نے سکون کا گہرا سانس لیا۔ مسکرا کر اسے چھڑی رسید کی اور پھر واپسی میں بھی ہر درخت کو چھڑی سے چھیڑتے رہے، ہانپتے کانپتے گھر پہنچ کر وہ شدید سردی میں تیز بارش سے شرابور ہوچکے تھے، اس بار بیڈ روم میں انہوں نے بستر پر چھڑی نہیں لٹائی، وہ نڈھال اتنے تھے کہ اوئی کہہ کر خود بستر پر گرپڑے۔
ایک جج کی عقل ماؤف ہوگئی: ایک دیہاتی کا مقدمہ کسی ڈپٹی کے یہاں تھا، انہوں نے حاجی محمد عابد صاحب سے تعویذ مانگا اور تعویذ کو عدالت میں لے جانا بھول گیا۔ جب حاکم (جج) نے اس سے کچھ پوچھا تو ان کے سوال کا جواب نہ دیا اور یہ کہا کہ ابھی ٹھہر جاؤ، تعویذ لے آؤں پھر بتاؤں گا ۔ وہ ڈپٹی(جج) مسلمان تھے، مگر نیچری خیال کے تھے، کہا کہ اچھا لے آ، دیکھوں تو تعویذ کیا کرے گا؟ اور دل میں ٹھان لیا کہ اس کا مقدمہ حتی الامکان بگاڑ دوں گا ۔ آخر کار وہ گنوار تعویذ لے کر آگیا اور پگڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس میں رکھا ہے، اب پوچھو ۔ چنانچہ ڈپٹی صاحب (جج) نے خوب جرح و قدح کی۔ اور اس کا مقدمہ بالکل بگاڑ دیا۔ اور اس کے خلاف فیصلہ لکھا ، مگر جب سنانے لگے تو فیصلہ کو بالکل الٹا پایا اور بہت حیران ہوئے کہ میں نے تو اس کے خلاف کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ اس کے موافق ہے۔
پھر حضرت والا نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی عقل پر پردہ ڈال دیا کہ وہ سمجھ کچھ رہے تھے اور کر کچھ رہے تھے ( ذہن میں کچھ اور ، لکھا کچھ اور ) پھر انہوں نے حاجی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے عقائد باطلہ سے توبہ کی۔
انہیں کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
Comments
Post a Comment