علم و قوّت کی اہمیت

  تحریر:  ابوالحسنات قاسمی


علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے


شریعت اسلامیہ نے نہ صرف بغرض حفظان صحت قوت بدنی (جسمانی طاقت) کے اہتمام کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، بلکہ زمام اقتدار، مملکت و سلطنت سنبھالنے کے لیے بھی حصولِ قوت و طاقت بلکہ ساتھ ہی ساتھ ازدیادِ علم (تعلیمی میدان میں برتری) کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ علم و حکمت کے ذریعہ ایک ایسی قوت و طاقت (سیاسی فہم و بصیرت) بہم پہنچتی ہے جو کہ قوت و طاقتِ جسمانی و بدنی سے ماورا ہے ۔


 چنانچہ اللّٰہ تبارک و تعالی نے طالوت کو کس طرح ملک (حکومت واقتدار) عطا کیا تھا، قرآن مجید میں باری تعالی نے یوں ذکر فرمایا ہے۔ "واللّٰہ یؤتی ملکہ من یشاء" (اور اللّٰہ کو اختیار ہے کہ اینا ملک جسے چاہے دے) اور آیت کے اس جزء سے قبل "وزاده بسطة في العلم و الجسم" بیان کرکے انتہائی واضح اشارہ دیا ہے کہ حصول ملک واقتدار اور حکومت میں شمولیت و اختیارات اور کلیدی عہدوں تک رسائی کیلئے تعلیم میں ترقی و فوقیت اور اس کے بعد جسمانی و بدنی قوت (وصحت) کی ساخت و پرداخت (دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیت) پر توجہ دینے کی ضرورت۔


 دفعةً جس سے بدل جاتی ہے تقدير أمم*

ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقلِ حکیم*


 اور آیت کے وسط میں "ولم يؤت سعة من المال" فرما کر یہ مزید واضح کردیا کہ حصول ملک کیلئے مال کی چنداں ضرورت و حیثیت نہیں (جتنا کہ علم و قوت، خواہ وہ قوت انفرادی ہو یا اجتماعی، اس لیے کہ جب کوئی شخص علم و قوت کی صفت سے متصف ہوگا اور یہ دونوں بنیادیں مضبوط ہوں گی تو مال اس کی وساطت سے خود بخود حاصل ہوجائے گا، جیسا کہ آج کل عظیم بھارت میں روز بروز مشاہدہ ہورہا ہے کہ علوم دنیاویہ کے حاملین اور قوت اجتماعیت کے متحملین کس طرح آسانی سے مال اڑانے میں مصروف ہیں)۔


ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پرانحصار*

قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری*


 بہر کیف! جب سورة 'البقرة' کی آیت 247 کہ تہ میں جاکر باریکی سے جائزہ لیں گے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں ہوگا کہ "حکومت و اقتدار تک رسائی اور قیامِ شہنشاہی کے لئے کن مراحل سے گزرنے اور کن کن صفات سے متصف ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 چنانچہ آپ اس آیت میں ذرا سا بھی توجہ اور غور کریں گے تو مذکورہ باتیں روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائیں گی۔


 ترجمہ : اور ان کے نبی شمویل (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ: "اللّٰہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔" کہنے لگے کہ "بهلا اس کو بادشاہت کا حق کہاں سے آگیا؟ ہم اس کے مقابلہ میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں، نبی (عليه السلام) نے کہا "اللّٰہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے، اور انہیں علم اور جسم میں (تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللّٰہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللّٰہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔" (البقرہ ٢٤٧)


اس آیت میں اللّٰہ تعالی نے بنی اسرائیل کا ایک قصہ بیان کیا ہے اس میں غور کریں گے تو علم اور قوتِ بدنی و طاقتِ جسمانی کی اہمیت واضح ہوجائےگی۔ (اسی وضاحت کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے خامہ فرسائی و قلم جنبانی کی ضرورت پڑی)۔


 یہ قصہ حضرت عیسی علیہ السلام سے تخمیناً، گیارہ سو (1100) برس پہلے گذرا ہے، اس قصہ میں خدا تعالی نے (اس وقت کے) مسلمانوں کو جہاد میں ثابت قدمی اور استقلال و مصائب برداشت کرنے کی طرف رغبت دلایا ہے۔ (اور یہ استقلال و مصائب کا برداشت کرنا بغیر قوت کے مشکل ترین امر ہے)۔


اس قصہ میں چھ باتیں بیان ہوئی ہیں (جن میں سے دو باتیں اس تحریر کا ماحصل ہیں۔ ایک علم، دوسرے قوت)، اور قصہ کی چھ باتیں یہ ہیں:

 بنی اسرائیل کا اپنے نبی (شمویل) سے بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کرنا، پھر اس پر شمویل علیہ السلام کا بنی اسرائیل پر 'ساؤل' کو کہ جس کو (1) 'طالوت' کہتے ہیں (یہ لقب تھا) بادشاہ مقرر کرنا،

(2) بعض لوگوں کا طالوت کے افلاس اور ظاہری حال کی وجہ سے انکار کرنا کہ یہ بادشاہی کا مستحق نہیں ہے مگر ان کو اللّٰہ تعالی نے بادشاہ منتخب کیا اس سے معلوم ہوا کہ حکومت اقتدار اور بادشاہت کے لئے مال و زر اور دولت کا نہ ہونا کوئی حیثیت اور معنیٰ نہیں رکھتا اور پھر نبی علیہ السلام کا ان کی بادشاہی کی علامت "صندوقِ شہادت" کا کہ جس کو 'تابوتِ سکینہ' کہتے ہیں دشمنوں کے ہاں سے خود بخود آجانا، (3) طالوت کا لشکر عظيم لے کر فلسطیوں کے مقابلہ میں نکلنا (اور لشکر عظیم بھی ایک طرح کی قوت ہی ہے)، (4) طالوت کے لشکر کا جالوت کے مقابلہ میں جاکر خدا تعالی سے دعاء کرنا، (5) لشکرِ طالوت کا جالوت پر فتح پانا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ جالوت فلسطی کا قتل ہونا، (6) داؤد علیہ السلام کو بادشاہی اور علم و حکمت عطاء کرنا۔


 اس قصہ کا مبداء و محور اور پس منظر و مطمحِ نظر "علم و قوت" کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، اس لئے کہ یہی علم و حکمت اور قوت و طاقت اصل سرچشمہ ہے حکومت و اقتدار کے اعلی ترین عہدوں تک رسائی کا۔


اور اس سے صرف نظر وحئِ اول کا لفظ اول "اقرأ" ہی علم کی افادیت وضرورت اور ایمیت کو یقینی بنانے کے لئے کافی ہے۔


  *یقین افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے*

 *یہ قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے*


مارچ 30، 2018م

Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج