کلیدی عہدے نا اہلوں کے سپرد
تحریر: ابوالحسنات قاسمی
کلیدی عہدوں کے لئے انتخابات اور نااہلی
انتخابات کسی بھی سطح کے ہوں خواہ کسی ملک کے مرکزی اقتدار (ایوانِ بالا، پارلیمنٹری بورڈ، وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ) کا ہو، ریاستی سطح (ایوانِ زیریں ،وزارتِ علیا) کا ہو، مساجد کی سطح (تولّیت) کا ہو، مدارس کی سطح (اہتمام و نظامت) کا ہو، دعوۃ اور تبلیغ و ارشاد پر مبنی کسی اصلاحی تنظیم، جماعتی سطح (امارت) کاہویا خانقاہی سطح (خلعتِ خلافت عطا کرنے ، خلیفہ و جانشین بنانے) کا ہو یا دیگر کسی ادارے یا ادارہ کے شعبہ جات کے کلیدی عہدوں کی سطح کا ہو، انفرادی سطح کا انتخاب ہو یا اجتماعی بہر صورت انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔
رسول اللّٰہ ﷺ کی مجلسِ ارشادات گرم ہے، (حاضرینِ مجلس) صحابۂ کرام ؓ ہمہ تن بگوش (سننے میں مصروف) اچانک ایک شخص نے کھڑے ہوکر پوچھا کہ "یا رسول اللّٰہ قیامت کب آئے گی؟"۔ اس بے ڈھنگے اندازِ استفسار اور بے ہنگم سوال پر آپ ﷺ نے توجہ نہ فرمائی، جو پہلے سے موضوع تھا اسی پر ارشاد ہوتا رہا، کچھ صحابہ ؓ بولے کہ آپ ﷺ نے اس کا سوال سنا ہی نہیں، جب کہ کچھ کی رائے تھی کہ سن تو لیا لیکن اس انداز پر آپ ﷺ کو ناگواری ہوئی تاآنکہ پہلی بات ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ کون صاحب ہیں جو قیامت کے بارے میں پوچھ رہے تھے ؟ بولے کہ میں ہوں یا رسول اللّٰہ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب دنیا سے "امانت" اٹھ جائے گی سمجھنا قیامت پاس آلگی۔ سوال کیا کہ امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ فرمایاکہ "اِذَا ٱسنِدَ الأَمْرُ الٰی غَیْرِ أَہْلِہ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ" (صحیح بخاری) اہم امور نااہلوں کے سپرد کرنا ہی امانت کا ضائع و برباد ہونا ہے۔
سیاسیات سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ملک میں پھیلی ہوئی انارکی و طوائف الملوکی کا بچشمِ کشا مشاہدہ کررہے ہیں ، زمانے کی نبض پر انگلی رکھ کر ’’ مرض الفساد فی الہند ‘‘( ملک میں پھیلی بد نظمی ) کا واقعی سبب معلوم کریں تو یہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ ووٹ ( انتخابی سقم ) کی بنیاد پر نا اہل نہ صرف بالائی مجالس ( پارلیہ مینٹ ) تک پہونچ گئے بلکہ ملک کے کلیدی عہدوں پر قابض اور وزارتوں کی کرسیوں پر وِراجمان ہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں کہ انھیں منتخب کرنے والے ( ووٹ دینے والے ) اپنے حسنِ انتخاب پر نازاں و فرحاں ہیں ، بظاہر تو خندہ پیشانی بلکہ دریدہ دہنی کا اظہار کررہے ہیں مگر ان کی اندرونی کیفیت و حالت ( بمصداق ’’ قبر کی حالت مردہ جانے ‘‘ ) دگرگوں ہے ، بالفاظِ دیگر ان کی مثال ’’ سانپ کے منھ میں چھچھوندر ‘‘ کی سی ہے ۔ سبب وہی انتخاب کی اہمیت کو نہ سمجھنا ۔
بہر کیف ! کم وبیش یہی حالت ملک کی ایک سرکردہ اصلاحی تحریک ( تبلیغی جماعت ) کے موجودہ روحِ رواں ( امیر ) کا ہے ، کہ ان کا انتخاب ووجود مظاہراتِ (اشراط الساعۃ ) علاماتِ قیامت میں سے ایک ہے ،جو فرمانِ نبوی ﷺ : "اِذَا ٱسندَ الأَمْرُ الٰی غَیْرِ أَہْلِہ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ" (صحیح بخاری) کی تصدیق ہے ۔
پرانے بزرگوں میں جانشینی کا مسئلہ، اہم امور کے سپرد کرنے کا مرحلہ اس قدر اہم تھا کہ نہ قرابتوں کا لحاظ، نہ خدمت کاپاس، نہ کسی نسبت کا لحاظ، بس ایک ہی چیز پر نظر رہتی کہ جس کو ہم کوئی ذمہ داری دے رہے ہیں کیا وہ اس کا اہل ہے؟۔
آیئے (عہدۂ جانشینی کے) دو نادر المثال (واقعات) نمو نۂ حسنِ انتخاب پیش کرتاہوں، پڑھئے اور سر دھنئے:
٭ امام شافعی ؒ فقہ کے ستون ہیں، ذکاوت وذہانت کے حکمراں، علم کے دریا، کمالاتِ ظاہر وباطن کے پیکر، نہ رئیس تھے نہ متموّل، نہ صاحبِ جائداد، نہ آسودہ حال، پوری زندگی تنگ دستی میں گذری، غربت و ناداری ہمیشہ سایہ کی طرح ساتھ رہی۔ آپ کے ایک ممتاذ شاگر د ابن عبد الحکم (عبد اللّٰہ ابنِ عبد الحکم المصری) بڑے دولتمند تھے جو محبوب استاذ کے قدموں میں اپنے تموّل (مال و زر) کو نثارکرتے ہوئے تمام ضروریات کی کفالت کرتے اور اس حوصلہ سے کہ جس کی مثال نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ جب امام شافعیؒ کا وقتِ موعود قریب آیا تو عوام (اپنے معتقدینِ و منتسبین)کے اس اصرار پر کہ " اپنا کوئی جانشین منتخب فرمائیں" ادھر توجہ فرمائی، سب کو یقین تھا کہ ابنِ عبد الحکم امام صاحب سے جانشینی کا اعزاز حاصل کرلیں گے۔ خود ابنِ عبد الحکم کو بھی یقین تھا کہ میری جاں نثاریاں میری سب سے بڑی سفارش ہیں۔ لیکن امام ہُمام رسول اللّٰہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں جانشینی کو امانت سمجھتے اور اس امانت کے سب سے زیادہ اہل و مستحق پر آپ کی نظر ٹکی ہوئی تھی، آپ نے اپنا جانشین امامِ مزنی (ابو ابراہیم اسماعیل بن یحیٰ عمرو بن اسحاق 'المعروف المزنی الامام') کو بنایا۔
٭ ابنِ ہُمام (محمد ابن عبد الوا حد عبد الحمید بنِ مسعود السیواسی الاسکندری، کمال الدین، 'المعروف ابنِ ہمام') حنفی عالم ہیں۔ وہی دانشور جس نے ہدایہ کی پُروقار شرح "فتح القدیر" کے نام سے لکھی جو آج علماء کے لئے قیمتی اثاثہ اور علمی کتب خانوں کے لئے متاعِ بے بہا ہے، ان کے شاگردوں میں ایک سے ایک بڑھا ہوا تھا، لیکن بوقتِ وفات تُرکی النسل ایسے شاگرد کو اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا جس پر ابتداء میں سب اس لئے متحیّر تھے کہ اک گمنام کا انتخاب کیسے ہوا؟ اور بعدِ انتخاب سب اس پر حیرت زدہ کہ استاذ کی نظر شاگرد کی ان صلاحیتوں تک کیسے پہونچی جس کا خزینہ اس کا سینہ تھا؟۔
آج دنیا میں جو افرا تفری ہے، انسانیت نڈھال ہے، روایتیں پامال ہیں، قدریں مِٹ رہی ہیں اس کا بنیادی سبب نااہلوں کی سیادت و قیادت ہے۔ خانقاہیں اس کی زد میں، مدارس اس کے شکار، مسجدوں تک یہ برائی جاپہونچی، حکومتوں میں اس کی وجہ سے گڑبڑ، دفاتر میں اس کی بناء پر تعطل، مذہبی ٹھیکیدار مولوی ہوں کہ ملاّ، سوامی ہوں کہ پنڈت، راہب ہوں کہ سَنت ہر ایک بدی میں مبتلا اور بدی کی جڑ وہی نااہلی کہ عہدے وراثتاً چل رہے ہیں حالانکہ وارث نااہل، اور میدانِ سیاست میں بھی یہی حال ہے کہ وزارتیں اپنے حلیفوں کو دی جارہی ہیں حالانکہ ان میں اہلیت کا فقدان ۔
تا وقتیکہ کہ دنیا اہلیتوں کی بنیاد پر تقسیمِ کار نہ کرے گی اور عہدوں کو امانت سمجھ کر فیصلے نہ ہوں گے دنیا کا رُخ آبادی کی بجائے تباہی، فلاح کی بجائے فساد کی طرف یقیناً رہے گا ۔
Comments
Post a Comment