قاری ارشاد احمد نعمانی بحیثیت ایک عامل
تحریر: ابوالحسنات قاسمی
15/5/2018
قاری ارشاد احمد نعمانی بحیثیت ایک عامل
ہر زمانے میں ہر میدان میں کچھ ایسی ہستیاں و شخصیات رہی ہیں جو کسی نہ کسی فن میں مہارت تامہ سے مزین، آراستہ و پیراستہ اور سرفراز تھیں مگر افسوس کہ ان کی سادگی اور عدم ریاکاری کے سبب ان کو ناقص و ناکارہ سمجھ کر معاصرین نے نہ صرف یہ کہ ان کی کما حقہ قدر دانی نہیں کی بلکہ ان سے جس قدر استفادہ کرنا چاہئے تھا اس سے بھی محروم رہے۔ انہی ناقدر دانیوں کی وجہ سے ہر میدان میں (خواہ وہ طب و حکمت اور جراحت ہو، یا خطاطی و آلات سازی ہو، یا سائنس وٹیکنالوجی ہو ، یا تعلیمات اور حرفت و صنعت سے مربوط شعبے و میادین ہوں) کسی میں بھی خالی جگہوں کی بھرپائی نہیں ہوسکی، اس لئے کہ مذکورہ میدانوں میں نیابت و جانشینی کے لئے ضرورت تھی ماہرینِ وقت کی قدر دانی کی اور اس کے فقدان کی وجہ سے ماہرین نے اپنے اپنے فن کے متلاشی افراد کو نااہلی کی بنیاد پر علوم و فنون اور حرفت و صنعت کو منتقل کرنے سے گریز کیا (میں نے اس کی وجہ تلاش کی تو 'حدیث "اذا اسند الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ" پر نظر ٹکی، کہ ان حضرات نے نا اہلی کی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرکس وناکس کو اپنا ہاتھ (خزینہ علم و فن) دینے سے احتراز کیا، ہاں شاذ و نادر کو صرف نظر کیجئے۔
بہر کیف اسی حالت کا عملیاتِ صادقہ کی دنیا میں بھی مشاہدہ کیا جارہا ہے، کہ اچھے اور فن کار عاملین یکے بعد دیگرے گزرتے گئے مگر ان کا خلاء پُر نہیں ہوسکا، الاالشذوذ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناکارہ، ناقص و نام نہاد عاملین نے سوقیانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان عملیات میں اپنے جھنڈے فہرا دیئے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس معاملے کے ضرورت مندوں کو صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دمڑی کے ساتھ چمڑی نوچوانا پڑتا ہے بلکہ بعض دفع تو نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ عقائد بھی مجروح ہوجاتے ہیں مگر سوائے جانی، مالی و اعتقادی نقصان کے کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا۔
بہر حال دنیائے عملیاتِ روحانی میں اس دور قحط الرجال میں گجرات کی سرزمین (احمد آباد) سے تعلق رکھنے والے ایک عامل ہیں " قاری ارشاد احمد نعمانی "(جن کی قیام گاہ تو درگاہ شاہ عالم کے گیٹ کے قریب میں ہے اور روحانی شفاء خانہ بامبے ہوٹل، بیرل مارکیٹ علاقہ میں واقع ہے) ۔
ایک مرتبہ ان کی عملیات کے جائزہ لینے کا موقع میسر ہوا، راقم السطور کو بہت سے روحانی معالجین سے ملاقات کے مواقع ملے، سب کے انداز علاج و عملیات دیکھے مگر موصوف (قاری ارشاد احمد نعمانی) کا انداز ہی کچھ منفرد، نرالا بلکہ نہایت جداگانہ ہے، اکثر عاملین مریضوں پر نفسیاتی دباؤ بنانے کے لئے دروغ گوئی و کذب بیانی و جھوٹ وفریب (فراڈ) کا سہارا لیتے ہیں، ساتھ ساتھ ناریل، لیموں، کافور و اگربتی و اس قسم کے دیگر سامانوں (جو عموماً ملتے نہیں، پنساری بھی ان کے ناموں سے ناواقف ہوتے ہیں، یعنی خیالی سامانوں) کی طویل ترین فہرست تھما دیتے ہیں، چار و ناچار مریض سامان مہیا نہ کرکے اس کی قیمت (جو بھاری بھرکم ہوتی ہے، عامل صاحب کو) چکانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر قاری صاحب ان سب مخادعانہ انداز سے بالکل عاری اور بے نیاز ہوکر قرآن و سنت (شریعت) کی روشنی میں علاج فراہم کرتے ہیں، مادی معاملہ کو پس پشت و بالائے طاق رکھ کر مریضوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اگر کسی مریض کے پاس اتفاقاً حق المحنت دینے کی وسعت نہیں ہے تو اس سے نہ صرف یہ کہ کسی طرح کا جبری مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اس کو (گھر تک واپس جانے کا) کرایہ بھی اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں۔ اور علاج انتہائی صاف ستھرا، شرک وخرافات سے عاری جس سے عقائد بھی محفوظ رہیں مجروح نہ ہوں۔
در اصل ان کے اندر یہ خوبیاں کچھ تو ان کے استاد سے درآئی ہیں اور کچھ اثر ہے ان کے آبائی وطن کے ماحول کا۔
موصوف کا وطن : جناب قاری ارشاد احمد نعمانی صاحب کا تعلق مشرقی اترپردیش کے ضلع گورکھپور کے تحت واقع ایک گاؤں (اسونجی بازار) سے ہے ۔
(ابتدائی تعلیم،کچھ درجات پرائمری کے انھوں نے اسی گاؤں کے ادارہ "مدرسہ عربیہ مصباح العلوم" میں حاصل کی، پھر درجہ تحفیظ القرآن الکریم میں داخلہ لیا کچھ سپارے یہاں حفظ کئے اور قریب کے ایک دوسرے مدرسہ میں حفظ مکمل کیا اور پھر تجوید و قرأت کی تکمیل کے لئے دارالعلوم (مئو ناتھ بھنجن) ضلع مئو کا رخ کیا اور بروایت حفص سبعہ ، عشرہ کی تکمیل کی۔
تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ تک تو درس و تدریس سے منسلک و وابستہ رہے، مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر یکایک درس و تدریس سے اوب کر اس سلسلہ سے وارفتگی اختیار کرلی، اور چونکہ قاری صاحب کے دادا جان (معروف بہ 'محمد عمر پردھان') بھی اپنے وقت اور تعلقہ کے بے تاج عامل تھے مریضوں کا شبانہ روز بالخصوص بروز جمعرات صبح سے ہی ہجوم لگا رہتا تھا، چونکہ جن لوگوں پر آسیبی اثرات ہوتے ہیں وہ عجیب وغریب حرکت کرتے ہیں، دفع آسیب کے لئے عموماً عامل حضرات فلیتہ جلاکر اس پر آسیب و شیاطین کو حاضر کرکے مخصوص قَسمیں کھلاکر (دہائی دے کر) مریض کو اس حرکت سے چھٹکارا دلاتے ہیں اس دوران مریض خوب چیخ وپکار کرتا ہے تو اس طرح کا تماشا دیکھنے کے لئے بچوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی، کچھ خدمت دادا جان قاری صاحب سے بھی لیتے تھے، اس لئے قاری صاحب کو عملیات سے یک گونہ مناسبت ہوگئی تھی لھٰذا تدریسی سلسلہ کو خیر باد کہہ کر عملیات کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔
اب ضرورت محسوس ہوئی کہ جب اس میدان میں قدم رکھا ہے تو کامل دسترس حاصل ہونا چاہیے (تاکہ ربط گیر و حاجتمند بامراد واپس جائے)، اس کے لئے کچھ تو اپنے متعارف عاملین احباب سے رجوع کرکے معلومات حاصل کی، مگر کامل و تشفی بخش معلومات کے لئے موصوف نے (مولانا عبد العلی صاحب قاسمی محرر و منشی اردو لائبریری دارالعلوم دیوبند کی نگرانی و رہنمائی میں) دارالعلوم دیوبند کے کتبخانہ سے استفادہ کیا (انڈیکس بکس) فہرست کتب باعتبار عنوان و فن تلاش کرکے 'اوراد و وظائف' کے باب میں دیکھا تو درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں کتابیں نظر آئیں، حسبِ صلاحیت ان میں سے انتخاب کرکے مطالعہ شروع کیا اور یاد داشت (نوٹس) تیار کی۔ اس کے لئے کئی روز تک وہاں قیام کرنا پڑا.
باز آمدم برسرِ مطلب! موصوف کا گاؤں خالص اہل السنت والجماعت نظریہ و مسلک کے منتسبین پر مشتمل ہے، اور اپنے علاقے کا تبلیغی جماعت کا مرکز بھی ہے کچھ تو اس لئے اور زیادہ تر تو اس لئے اس بستی والوں کے عقائد خالص موحدانہ ونظریات انتہائی پاکیزہ ہیں کہ مشرقی یوپی کے (باب تصوف و طریقت کے ایک گمنام) بزرگ حضرت چاند شاہ ٹانڈوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) سے پوری بستی والوں کا اصلاحی تعلق تھا (اور ابھی تک یہ تعلق یوں برقرار ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے پڑپوتے مولانا محمد علی صاحب کا سال میں ایک بار ضرور اس گاؤں میں ورود مسعود ہوتا ہے اور لوگ ان سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں) اور حضرت چاند شاہ صاحب کے تعلق سے مولانا (علی میاں) ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا ہے کہ " حضرت چاند شاہ صاحب کے قدم (بغرض اصلاح) جس بستی میں پڑتے وہ بستی شرک و بدعات اور فسق وفجور سے پاک ہوجاتی اور اہلِ بستی شعارِ اسلام سے مزین ہوکر پکے موحد اور متقی و پرہیز گار بن جاتے، (اگر کسی کو حضرت چاند شاہ صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے تو "حضرت چاند شاہ صاحب اور ان کا خانوادہ تصوف" (حضرت چاند شاہ صاحب ٹانڈوی اور ان کے خلفاء کے حالات) پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کرے۔
تالیف: حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی، ناشر: مکتبۃ الشیخ مولانا اعجاز احمد اعظمی)۔
قاری صاحب موصوف کے گاؤں 'اسونجی بازار' کا واقعۃً یہی حال ہے، کوئی بھی شخص جاکر مشاہدہ کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں قاری صاحب کا اصلاحی رابطہ حضرت مولانا مفتی احمد صاحب خانپوری مدظلہ العالی سے بھی ہے، اس رابطہ و روحانیت کے اثرات بھی ان کی شخصیت و عملیات دونوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ اور جناب کا روحانی فیض بفضلہ تعالیٰ صرف احمد آباد میں ہی نہیں بلکہ اطراف وجوانب میں بھی خوب سے خوب تر جاری وساری ہے اور خلقِ خدا کی کثیر تعداد مستفید و مستفیض ہورہی ہے۔
موصوف کا طریقہ علاج:
موصوف بھی دیگر عاملین کی طرح تعویذات و نقوش ضرورت مندوں کی ضروریات کی مناسبت سے دیتے ہیں، اکثر تو علم الاعداد کے حساب سے تیار کرتے ہیں اور کچھ تعویذات و عملیات اکابرین کے مجربات (یہ کتاب نہیں ہے بلکہ ان کی تیار کردہ یاد داشت ہے) سے نقل کرکے دیتے ہیں۔ مگر کچھ پریشانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جس کا علاج فلیتہ کے ذریعہ کرنا پڑتا ہے، اور یہ فلیتہ والا علاج ان کا مخصوص انداز کا ہے، کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسلمندی اور لاپرواہی کی وجہ سے کافی لمبے عرصے سے جادو ٹونہ، آسیب اور ارواح خبیثہ کے زیر اثر رہ کر طرح طرح کی بلیات میں مبتلاہوجاتے ہیں،ان کے تن بدن اور خون میں (آسیب و سحر کے سبب و عوض) مختلف النوع مہلک امراض و اسقام سرایت کر جاتے ہیں،ان مریضوں پر عام علاج کارگر نہیں ہوتا، بلکہ عام علاج سے مرض مزید شدت اختیار کر جاتا ہے اور معالجین و عاملین عاجز ہو جاتے ہیں، تو ایسے میں فلیتۂ خاص والا عمل انجام دینا پڑتا ہے، اس کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے صفحات در صفحات رنگین کرنے پڑیں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ عاملینِ کاملین سے معاندت و منافرت رکھنے والے اس حقیقت بیانی کو لاف زنی (ڈینگ مارنا) تصور کرنے لگیں گے۔ بس یوں سمجھ لیا جائے کہ اس فتیلہ کی خوبیاں و خاصیات بیان کرنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے 'دریا کو کوزے میں، ساگر کو گاگر' میں سمونا۔
اس فلیتہ کا عمل شروع ہوتے ہی سحر، کرنی، کرتب جادو،دیو پری اور چڑیل (آسیب زدہ اور سحر زدہ) مریض کے وجود میں حاضر ہوجاتے ہیں، (سحر اس لئے حاضر ہوتا ہے کہ اس میں بھی عموماً ارواحِ خبیثہ سے ہی مدد لی جاتی ہے اور جس طرح دیو و پری حاضر ہوتے ہیں اسی طرح ارواحِ خبیثہ بھی حاضر ہوتی ہیں۔ حالانکہ ناقص قسم کے عاملین نے سحر کے حاضری و حضوری کا انکار کیا ہے) ان کی حاضری سے مریض کا وجود بھاری ہو جاتا ہے اور اس کے اعضا ء جنبش کرنے لگتے ہیں اس کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں، (بظاہر یہ ہانپنے و کانپنے کی حرکت مریض پر طاری ہوتی ہے مگر درحقیقت یہ حرکت ان ارواح کے ساتھ ہوتی ہے جو مریضوں کے اندر سرایت کئے ہوئے ہوتی ہیں) اور فلیتہ کی شدت و تپش کو برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے وہ ارواح نہ صرف یہ کہ چیخنے، چلانے لگتی ہیں، بلکہ مریضوں کو وہ ارواح مختلف شکلوں میں نظر بھی آتی ہیں اس کا معمہ یہ ہے کہ وہ ارواح جو جو شکلیں (سانپ، بچھو، شیر، بندر، ہاتھی،یا دیگر خونخوار جانوروں کی شکلیں) تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہیں ان ان شکلوں کو اختیار کرکے فرار ہونے کی کوشش کرتی ہیں تو مریضوں کو اُنہی شکلوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
بہرکیف یہ فلیتہ تو اصلاً 'نیلگوں' کے نام سے موسوم ہے مگر اس میں موصوف نے عملیاتی ترامیم کی ہیں اس لئے کائنات کا یہ انوکھا و منفرد فلیتہ ہوگیا ہے۔ اس فلیتہ (اور عامل و عمل) کی ایک انفرادیت و امتیاز یہ بھی ہے کہ مریضوں کا فرداً فرداً علاج کرنے کی بجائے اجتماعی علاج ہوتا ہے اور یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ باوجودیکہ سب مریضوں پر جداگانہ اثرات ہوتے ہیں مگر (بمصداق 'ہر مرض کی دوا ہے صل علٰی محمد') ایک ہی فلیتہ سے سب کے اثرات کو جلا کر خاکستر کردیتے ہیں ۔
اور ساتھ ہی ساتھ عاملِ محترم کے ساتھ زمانے کی خدا رسیدہ و مقبول و مستجاب ہستیوں و شخصیات کی دعائیں و توجہات، اور الطاف و عنایات بھی شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ فلیتہ سریع التاثیر ہوکر فی الفور اپنے اثرات مریضوں پر مرتب کرتا ہے
اس کے علاوہ موصوف نے چند آیاتِ قرآنی پر مشتمل ایک رقیہ ترتیب دے کر اپنی خوش الحان و مسحور کن آواز میں تلاوت کیا ہے، جو دفعِ بلیات و مضرات اور شفائے اسقام و امراض، رفعِ شکوک وشبہات ، دفعِ کرب و بلا اور حصولِ برکات و جلبِ منفعت کے لئے انتہائی مفید و مؤثر اور مجرب و زود اثر ہے۔
بس یہ سمجھ لیں کہ قاری ارشاد احمد نعمانی کی شخصیت:
* عباراتنا شتى وحسنك واحد *
نــیـــز
*دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار*
سے عبارت ہے۔
Comments
Post a Comment