تعلیم کی اہمیت اور اس کے لئے جدّ و جہد

 

تحریر: ابوالحسنات قاسمی


      پئے علم چوں شمع باید گداخت


تعلیمی میدان میں کامیابی کے لئے انہماک اور جہدِ مسلسل (استقلال و استقامت) کے ساتھ ساتھ آلاتِ علم کا احترام ضروری ہے۔ 


اگر یہ تیں صفات کسی طالبِ علم کے اندر پیدا ہوجائیں تو کامیابی کے مراحل طے کرنے میں کوئی شئ حائل نہیں ہوسکتی اور اس کی کامیابی کی ضمانت یقینی ہے ۔


چونکہ مثالوں سے کسی امر کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، جیسا کہ آپ نے کلامِ الٰہی میں بھی متعدد مقامات پر "مَثل اور اَمثال" کا لفظ پڑھا ہوگا جس سے باری تعالیٰ نے مختلف واقعات کے ذریعہ کسی امر کی حقیقت و واقعیت اور اہمیت کو اجاگر اور سہل کرتے ہوئے مخاطب کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے مذکورہ بالاصفاتِ ضمانتِ فتح و کامیابی واقعات و امثال کی روشنی میں باصرہ نواز کروں گا تاکہ وہ افراد جن کے بچے زیرِ تعلیم ہوں (خواہ وہ تعلیم دینی ہو یا عصری) اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان مثالی واقعات کے ذریعہ اپنے نونہالوں کو ترغیب دلاکر کامیابی کی منزل کی جانب گامزن کرسکیں۔


انہماک: مامون رشید خلافتِ عباسیہ کا ساتواں خلیفہ تھا۔ (بمصداق 'آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری') نہ صرف سابقہ تمام خلفائے عباسیہ کی صفات و کمالات کا تنِ تنہا حامل تھابلکہ دانشمندی، حلم و بردباری، علم و تدبیر، شجاعت و ہیبت، فیاضی و عدل گستری اور حوصلہ میں ان سب سے فائق تھا۔ 


اس کی تعلیم وتربیت میں دو ماہر و مشّاق اساتذہ 'امام کسائی اور یزیدی' کا خاص کردار رہاہے۔ دورانِ تعلیم ایک مرتبہ شاہی دارالمطالعہ میں مصروفِ مطالعہ تھا، شاہی خدام اس کی نگرانی اور تکمیلِ ضروریات پر تعینات تھے، یکایک دورانِ مطالعہ اس نے پانی طلب کیا، بروقت موجود ایک خادم نے خلیفہ ہارون رشید کو مطلع کیا کہ شہزادے پانی طلب کررہے ہیں، خلیفہ بہت حیران ہوا اور اپنے آپ ہی سوچ رہاتھا کہ دورانِ تعلیم شہزادے کا اشیائے خورد و نوش کے مطالبے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا ذہن تعلیم سے بھٹک چکا ہے، چنانچہ شاہانہ حکمت و دانائی کا استعمال کرتے ہوئے خلیفہ نے خادمِ خبر رساں کو حکم دیاکہ پانی کی بجائے ایک گلاس میں روغنِ شیریں (زیتون یا رائی کا تیل) لے جاکر اس کو پیش کرو، چنانچہ خادم نے تعمیلِ حکم کی تکمیل کرتے ہوئے تیل پیش کردیا۔ مامون رشید نے بھی اسی انہماک کی حالت میں اس تیل کو نوش کرلیا اور اس کو احساس بھی نہ ہوا کہ اس نے کون سی شئ نوش کی ہے، خادم نے خلیفہ کواس واقعہ سے مطلع (باخبر) کیا تو اس نے بارگاہِ ایزدی میں شکر ادا کیا کہ ابھی میرے خانوادہ میں علمی ذوق و شوق پورے آب و تاب سے باقی ہے۔ 


تو یہ تھی علمی انہماک کی ایک مثال کہ تعلیم و تعلم اور دورانِ مطالعہ کتاب، کاپی اور قلم کے سواء کسی چیز پر نظر و ذہن نہ رہنا چاہئے۔


جہدِ مسلسل: موتی(مروارید) بننے کا عمل ایک استقلالی و استقامتی مرحلہ سے گذرکر ہوتا ہے۔ موتی ان سیپوں (صدف) کے اندر پیدا ہوتا ہے جو سمندر میں ہوتی ہیں۔ آج کل مصنوعی موتی تو روزانہ تیار کئے جاتے ہیں مگر سچے موتیوں کی پیدائش کا ایک خاص وقت اور مرحلہ ہوتا ہے۔ اس تحریر میں اسی خاص مرحلے کو جہدِ مسلسل اور استقلال و استقامت سے تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ مرحلہ یہ ہے کہ موسمِ باراں کے شروع ہوتے ہی سمندر کی سیپیں اپنا اپنا منھ کھول کر اوپر (آسمان) کی جانب کرکے اس انتظار میں کھڑی ہوجاتی ہیں کہ کب بارانِ رحمت کا نزول ہو اور ایک قطرہ ان کے منھ میں چلا جائے اور وہ منھ بند کرکے سمندر کی تہہ میں جا بیٹھ کر حرارت دے کر موتی کی پیدائش کریں۔ مگر یہ بات ذہن نشیں رہے کہ موسمِ باراں کی بھی ہر بارش میں یہ کام انجام نہیں پاتا۔ بلکہ ایک ستارہ (نچھتر) ہوتاہے "سَواتی" (اب یہاں ذرا رک کر نچھتر سے متعلق کچھ باتیں عرض کرنی ضروری ہیں اس لئے کہ آج کل کم علمی کے باعث کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ 'نچھتر اور راشی' کی باتیں ہندوانہ عقائد سے متعلق ہیں۔ حالانکہ یہ فکر بالکل فاسد ہے۔ بلکہ یہ سراسر اسلامی اور خالصۃً قرآنی علوم سے متعلق باتیں ہیں، زبان بدلنے سے عقیدہ نہیں بدل جاتا۔

 آپ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لفظ "بروج" پڑھا ہوگا، چار (٤؍) مقامات پر تذکرہ ہے، انہی بروج کو سنسکرت زبان میں 'راشی' کہتے ہیں۔ اور اسی طرح متعدد مقامات پر آپ نے "النجم ، النجوم" کا لفظ پڑھا ہوگا ، ۱؍ جگہ واحد اور ٦؍ جگہ جمع کے ساتھ استعمال ہوا ہے، اور اسی طرح "کوکب" کا لفظ بھی ۳؍ جگہ واقع ہوا ہے، انہی 'نجوم و کواکب' کو سنسکرت زبان میں نچھتر کہتے ہیں۔ نجوم و کواکب سیارے ہیں اور بروج اس کی منزلیں۔


صاحبِ جلالین نے ولقد جعلنا فی السماء بروجا (سورۃ الحجر آیت نمبر ١٦؍) اور تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً (سورۃ الفرقان آیت نمبر ٦١؍) کے تحت سیاروں اور ان کے منازل 'بروج' کو اس طرح واضح کیا ہے "الحمل والثور والجوزاء والسرطان والأسد والسنبلۃ والمیزان والعقرب والقوس والجدی والدلو والحوت وھی منازل الکواکب السبعۃ السیارۃ۔ المریخ ولہ الحمل والعقرب والزھرۃ ولھا الثور والمیزان وعطارد ولہ الجوزاء والسنبلۃ والقمر ولہ السرطان والشمس ولھا الأسد والمشتری ولہ القوس والحوت وزحل لہ الجدی والدلو۔"


ہندو نجومیوں نے منطقۃ البروج کو بارہ منازل کی بجائے ستائیس منزلوں (حصوں) پر تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کا کوئی نام رکھا ہے یہ "نچھتر" کہلاتے ہیں۔ نچھتر کے خواص و آثار اور علامات جداگانہ مقرر ہیں جس کے بموجب (بحکمِ الٰہی) ہر کام سر انجام دینے کے لئے نیک و بد (سعد و نحس) ساعتیں شمار کی جاتی ہیں، انہی کے توسط و وسیلے سے اہلِ نجوم پیشین گوئی بھی کرتے ہیں)۔ 


باز آمدم برسرِ مطلب! 'سواتی' نچھتر میں جب بارش ہوتی ہے تو باِذن ر ب و بحکمِ الٰہی بارش کے قطرات ان سیپوں کے منھ میں جاتے ہیں جو پورے موسم اپنا منھ کھولے اس وقت کے انتظار میں رہتی ہیں او ر وہ منھ بند کرکے سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہیں اورموتی بننے کے عمل کی ابتداء ہوجاتی ہے، پھر ان میں موتی پیدا ہونے کی وجہ سے ان کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور جو سیپیں وقت سے پہلے تھک ہار کر بیٹھ گئیں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اسی طرح جو طلباء جد وجہد اور استقلال کے ساتھ حصولِ تعلیم میں لگے رہتے ہیں ان کی قدر وقیمت اور عزت ہوتی ہے اور جو کسلمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کا کوئی قدر و قیمت نہیں ۔


علم اور آلاتِ علم کا احترام: یہ اساتذہ (اور سرپرستوں) کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں (طلباء) کو قلم، کتاب، کاپی، تپائی اور تعلیم میں ممد و معاون اشیاء و آلات کا احترام کرنا سکھائیں۔ آپ مدارس میں جاکر جائزہ لیں تو جہاں بہت ساری خامیاں ملیں گی وہیں یہ بھی معاینہ کرنے کو ملے گا کہ مختلف کتابوں کے اوراق ادھر اُدھر بکھرے پڑے رہتے ہیں جن میں قرآن و احادیث کے الفاظ مکتوب ہوتے ہیں (اگر قرآن و احادیث کے الفاظ نہ بھی ہوں صرف حروفِ ہجائیہ ہی ہوں وہ قابلِ احترام ہیں) اور بچے لا اُبالی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روندتے رہتے ہیں اور بچے ہی کیا بڑوں سے بھی اس واقعہ کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ بچوں کو بے ادبی کے نقصانات اور ادب و احترام کے فوائد بتلائیں ۔


حضرت حسن بصری ؒ ایک مرتبہ کسی راستے سے گذر رہے تھے، راستے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا تو اس کو اٹھالیا ، دیکھا تو اس پر اسمِ ذات ’’ اللّٰہ ‘‘ لکھا ہوا تھا، اس کو اپنے لباس کے کسی حصے سے پوچھ کر صاف کیا سینے سے لگایا پھر بوسہ دیا اور ادب و احترام سے اپنے پاس رکھ لیا، جب گھر واپس آئے تو اس نوشتہ کو معطر کرکے کسی اونچے مقام پر بحفاظت رکھ دیا، اس رات جب سوئے تو خواب دیکھتے ہیں (یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اہل اللّٰہ کے خواب رؤیائے صالحہ ہوتے ہیں "اضغاث أحلام" پریشان کن خواب نہیں ہوتے۔ بہرحال) ان کومژدہ دیا گیا کہ: حسن بصری! جس طرح تونے میرے نام کو معطر کیا اور مقامِ بالا پر رکھا ہے میں بھی اسی طرح تمہارا نام پورے عالم میں مہنکاؤں گا اور اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز کروں گا۔ چنانچہ آج دیکھ لیں کہ جماعتِ اولیاء میں حضرت حسن بصری ؒ کس بلند و بالا مقام پر فائز ہیں، اور کون ہے جو ان کے نام سے واقف نہیں؟۔


فروری 5، 2017م


https://unanewsco.wordpress.com/2017/02/05/%D9%BE%D8%A6%DB%92-%D8%B9%D9%84%D9%85-%DA%86%D9%88%DA%BA-%D8%B4%D9%85%D8%B9-%D8%A8%D8%A7%DB%8C%D8%AF-%DA%AF%D8%AF%D8%A7%D8%AE%D8%AA%DB%94/


Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج