مسلم امّہ سرد جنگ کی شکار

        

   تحریر: ابوالحسنات قاسمی


       كم من فقير لازم العلم وصل

      لذروة الجوزاء واستعلى زحل


 توٗ کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم*

تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم*


سرد جنگ کی تعریف دو اعتبار سے کی جاسکتی ہے۔ ایک سیاسی یا تاریخی، دوسری لغوی۔


سیاسی یا تاریخی اعتبار سے سرد جنگ کا دورانیہ 1940م سے 1990م تک ہے۔


تفصیل: ریاستہائے متحدہ امریکا اور سوویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940م سے 1990م کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثير اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ امریکا اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لیے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔ (ویکیپیڈیا)


اس کے مختلف زمرہ جات ہیں: تنظیمی، تنازعاتی، سیاسی، شخصیاتی، عسکری۔


 مگر راقم کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ کیوں کہ اس تحریر کا مقصود امت مسلمہ کی توجہ اُس طرف مبذول کرانا ہے فی زمانہ امتِ مسلمہ جس سرد جنگی سے بر سرِ پیکار، جس کا شکار ہے۔ اور وہ ہے 'تعلیمی و نظریاتی جنگ۔'

چنانچہ اس کی وضاحت سرد جنگ کی لغوی تعریف سے عیاں ہوتی ہے۔ 


لغوی اعتبار سے تعریف :

ذہنی یا دماغی لڑائی، نظریاتی جنگ، وہ لڑائی جو بغیر اسلحہ کے لڑی جائے۔ ایک دُوسرے کے خِلاف پروپیگنڈہ کو 'سرد جنگ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور یہی اس تحریر کا مطمح نظر ہے۔


حاصلِ ترقیم! کسی قوم کو زوال پذیر کرنا ہو، بغیر آلاتِ حرب و ضرب استعمال کئے قعرِ مذلت میں ڈھکیلنا ہو تو ضرورت ہوتی ہے کہ اس قوم کے مستقبل کے معماروں کی تعلیمی سمت کو گمراہی کی نذر کردیا جائے۔ اس کی ماضی کی (روشن) تاریخ کومسخ و مندمل کرکے پیش کیا جائے، اس قوم کے جیالوں کے کارہائے نمایاں کو دوسروں کی طرف منسوب کردیا جائے۔ اس کے رگ و ریشے میں احساس کہتری کو رواں دواں کردیا جائے۔ اس کے سامنے دروغ و فریبِ مسلسل کا ایسا کوہِ گراں حائل و قائم کردیا جائے کہ جس کو سر کرنا اس قوم کے بس کا نہ ہو، اس کے سامنے جھوٹ کا ایسا پلندہ، انبوہ و امبار لگادیا جائے کہ چار و ناچار اس جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ بلفظ دیگر "سرد جنگ" چھیڑ دی جائے۔


چنانچہ فی زمانہ مسخ شدہ تواریخ کی کتب کو درس گاہوں (نصاب تعلیم) میں داخل کرکے اسی روِش کو اپنایا جارہا ہے۔

مدارس کے بچوں کو یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ امریکہ "کولمبس" نے (1492ء میں) اور افریقہ "بونگ سٹون" نے دریافت (ہی نہیں بلکہ ایجاد) کیا تھا۔ مگر ان بچوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کولمبس نے بحر پیمائی کی تعلیم اسلامی درس گاہوں میں حاصل کی تھی، اس کے پاس رہ نمائی کے لئے جو قطب نما (Compass) تھا اس کو عربوں نے ایجاد کیا تھا۔ اور افریقہ جانے والوں کے پاس جو نقشے تھے اس کو عرب بحیرۂ روم، بحیرۂ قلزم، بحر ہند اور بحر الکاہل کے سفر میں صدیوں سے استعمال کررہے تھے۔


یہ ہے کشاکشِ حیات کا بنیادی مسئلہ اور سرد جنگ کا پیش خیمہ۔ اگر کوئی شخص ایسی کتاب لکھے جس میں اپنے آپ کو اول درجے کا اور آپ کو دوسرے درجے کا انسان قرار دے اور پھر اس کتاب کو مدارس کے نصاب میں شامل کردے تو آپ کو بہت جلد یقین آجائے گا کہ اللّٰہ نے آپ کو دوسرے درجے کی ہی مخلوق بنایا ہے، اور آپ درجۂ اول کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

   اسی بنیادی حقیقت سے سرد جنگ کا فلسفہ شروع ہوتا ہے۔ پھر کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ آپ کے خلاف فوج کشی کرے اور ظالم و غاصب کہلائے؟ کیوں نہ وہ فلسفہ آپ کے ذہن میں راسخ کردے، تاکہ خون ریزی کے بغیر ہی کائنات میں آپ کا مقام متعین ہوجائے۔ یعنی وہ مرکز ہو اور آپ دائرہ، وہ اعلیٰ ہو اور آپ ادنیٰ، وہ آقا ہو اور آپ غلام۔


     آپ کے سامنے جب کبھی بھی مسلمانوں کے زوال و پستی کے اسباب کا ذکر ہوگا تو "تعلیمی پسماندگی" ہی وجہِ اول مذکور ہوگی۔


      آج احتسابِ زوالِ امتِ مسلمہ کی جو نشستیں منعقد ہوتی ہیں اور غور و خوض کے بعد ترقی کے لئے جو لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ان میں حصولِ علم پر توجہ و رغبت دلانے کے لئے وحیِ اول "اقرأ" کا واسطہ و حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ پہلی مرتبہ "اقرأ" نفسِ قرأت مطلوب ہونے کی حیثیت سے فرمایا گیا تو دوسری مرتبہ اس امر سابق کی تعمیل پر آمادہ ہونے اور اس کی عملی صورت میں پورا کرنے کے لئے کہا گیا کہ بس پڑھئے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اقراء اول سے علوم باطنیہ کا پڑھنا مراد ہے اوراقراء ثانی سے علوم ظاہر ہ۔ لیکن پہلی توجیہ عربیت کی رو سے زیادہ قوی ہے۔ 

تاہم کلی طور پر علمی پس ماندگی ہی کو سببِ زوال شمار کرنا درست نہیں بلکہ من وجہٍ علم کے مطابق عمل درآمد نہ کرنے کا بھی بڑا دخل ہے۔ اس لئے کہ حصولِ علم سے شریعت کی منشاء و مقتضا درحقیقت علم کے مطابق اعمال کا صدور ہے۔


اس لئے کہ "جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے وہ عیسائیوں کی طرح ہے، اور جو علم تو حاصل کرتا ہے مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے وہ یہودیوں کے مشابہ ہے" اور اسی وجہ سے قرآن مجید پر ایمان لانے کو اعمالِ صالحہ سے ملزوم کیا گیا ہے ، کیونکہ علم نافع اصل میں وہی ہے جو عمل پر آمادگی پیدا کرے۔ اور بالیقین نتیجہ خیز عمل وہی ہوسکتا ہے جو علم کے مطابق ہو، (العلم شجرة والعمل ثمرة)۔


ببین تفاوت ره کز کجاست تا به کجا:

     بصد احترام، بسر وچشم یہ حقیقت تسلیم کہ 'اسبابِ زوالِ امتِ مسلمہ میں سے ایک علمی پسماندگی (دنیاوی، عصری تعلیم سے بے زاری و عدم دلچسپی) بھی ہے، مگر اس علم کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے "اقرأ" کا اطلاق و انطباق درست نہیں۔' چنانچہ اس سلسلے میں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے ایک استفتاء کا جواب (فتویٰ) بطور استشہاد پیش کیا جارہا ہے۔


جواب نمبر: 59658

بسم اللّٰه الرحمن الرحيم


Fatwa ID: 413-413/Sd=8/1436-U 

     قرآن وحدیث میں جس علم کے فضائل وارد ہوئے ہیں اس سے صرف علم دین مراد ہے، یعنی وہ علم جس کے ذریعے عبادات اور معاملات وغیرہ کے احکام معلوم ہوتے ہیں، حلال وحرام کے مابین تمیز ہوتی ہے، اللّٰہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، یہی علم انبیاء علیہم السلام کی میراث ہے اور بذاتِ خود اجر وثواب کا باعث ہے، اِس علم سے دنیوی علوم: انجینئرنگ، ٹیکنیکل، ڈاکٹری وغیرہ مراد نہیں ہیں، ان پر آخرت میں علم ہونے کی حیثیت سے کوئی ثواب کا وعدہ نہیں ہے، حضرت حسن بن ربیع رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبد اللّٰہ بن مبارک رحمہ اللّٰہ سے پوچھا کہ حدیث "طلب العلم فریضة علی کل مسلم"،

"علم کا سیکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔"

 اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبد اللّٰہ ابن مبارک رحمہ اللّٰہ نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں ہیں، جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملے میں مبتلا ہو، تو اس کے بارے میں جانکاری لوگوں سے پہلے حاصل کرلے "حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "علم کا سیکھنا ہرمومن پر فرض ہے۔" اس سے مراد روزہ، نماز، حلال وحرام اور حدود واحکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔" البتہ منکرات سے بچتے ہوئے کوئی بھی دنیوی، 

فن،سیکھنا شریعت میں ممنوع نہیں ہے، بلکہ فن کے سیکھنے میں اگر دین کی خدمت کی نیت کرلی جائے تو اس میں ثواب بھی ملے گا، لیکن اس کے باوجود اس کی حیثیت علم دین کے برابر نہیں ہوسکتی اور علم سے متعلق قرآن وحدیث میں وارد ہونے والے فضائل کا اس پر منطبق کرنا صحیح نہیں ہے۔

 قال ابن حجر: والمرادُ بالعلم العلم الشرعي الذي یفید معرفة ما یجب علی المکلف من أمر دینہ في عباداتہ ومعاملاتہ، والعلم باللّٰه وصفاتہ وما یجب لہ من القیام بأمرہ وتنزیہہ عن النقائص، ومدارُ ذلک علی التفسیر والحدیث والفقہ․ (فتح الباري: ۱/۱۴۱، باب قول النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم: الدین النصیحة، ط: دار المعرفة، بیروت)

 عن حسن بن الربیع، قال: سألتُ ابن المارک، قلتُ: "طلب العلم فریضة علی کل مسلم" أيُّ شيء تفسیر؟ قال: لیس ہو الذي تطلبون، إنما طلب العلم فریضة أن یقع الرجل في شيء من أمر دینیہ، یسأل عنہ، حتی یعلمہ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادي: ۱/۱۷۱، وجوب التفقہ في الدین علی کل المسلمین، ط: دار ابن الجوزي، السعودیة) وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنہ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم: طلب العلم فریضة علی کل موٴمن أن یعرف الصوم والصلاة. والحرام والحدود والأحکام․

 (الفقیہ والمتفقہ: ۱/۱۶۸)


واللّٰه تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج