گوہرِ امّت حضرت مولانا لعل محمد قاسمی
تحریر: ابوالحسنات قاسمی
گوہرِ امّت حضرت مولانا لعل محمد قاسمی، حیات و خدمات
تمنا دردِ دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی*
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں*
ولادت: حضرت مولانا لعل محمد صاحب کی پیدائش 1940ء ہے۔
سکونت: موضع اسونجی بازار، پوسٹ خاص و تھانہ سکری گنج، تحصیل کھجنی(سابق تحصیل بانس گاؤں) ضلع گورکھپور، ریاست اترپردیش، بھارت۔
تعلیمی سلسلہ: ابتدائی، پرائمری تعلیم اپنے وطن اسونجی بازار، گورکھپور کے ہی مدرسہ (مصباح العلوم،جو کہ اُس وقت گاؤں کے وسط میں جامع مسجد کے جنوب مشرق میں واقع تھا، اب 1963ء سے یہ مدرسہ گاؤں کے باہر مشرقی جانب قائم ہے۔) میں مختلف اساتذہ سے حاصل کی، قاعدہ بغدادی، یسرناالقرآن حافظ ختم اللہ صاحب سے پڑھا، اردو حافظ صدیق صاحب سے پڑھا اور کریما کا بھی کچھ حصہ حافظ صاحب نے پڑھایا، نیز اردو نویسی فخرالحسن صاحب سے سیکھا، علم دوستی کی وجہ سے یہ جناب مولوی فخرالحسن کے نام سے جانے جاتے تھے (یہ دونوں صاحبان اسونجی بازار کے ہی باشندہ تھے، شغلِ پارچہ بافی کے ساتھ ساتھ گاؤں کے بچوں کوبہت ہی دلچسپی کے ساتھ کارگہ کے پاس ہی پڑھایا کرتے تھے) ،پارہ عم حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی سے پڑھا۔ درس نظامی کی تعلیم بھی شرح جامی و شرح وقایہ (درجہ چہارم) تک اسی مدرسہ میں انتہائی قابل و فائق اساتذہ کرام حضرت مولانا عبد الباقی قاسمی صاحب بھولے پوری (تلمیذِ خاص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری)، مولانا محمد حنیف قاسمی صاحب فیض آبادی (جو کہ موضع موسے پور کے تھے مولانا نبیہ محمد صاحب کے برادرِ کلاں)، مولانا محمد مسعود قاسمی صاحب بھلوان والے سے حاصل کی۔ آگے کی تعلیم کے لئے 1958ء میں مدرسہ کرامتیہ دارالفیض جلال پور، ضلع فیض آباد (موجودہ امبیڈکر نگر) کا رخ کیا۔ ادارہ کے جید اساتذہ بالخصوص متکلمِ اسلام حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب اعظمی، مولانا اسد اللّٰہ صاحب، مولانا نبیہ محمد صاحب کی زیرِ نگرانی عربی ششم تک حصولِ تعلیم کے بعد مزید علوم کے حصول و تکمیل کے لئے 1961ء میں دارالعلوم دیوبند کا رختِ سفر باندھا، وہاں حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحب، فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب، حضرت مولانا فخر الحسن صاحب، حضرت مولانا محمد معراج صاحب، حضرت مولانا اسلام الحق صاحب جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے اکتسابِ علم کیا، موقوف علیہ و دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی اور اس طرح 1962ء موافق 1382ھ میں سندِ فراغت حاصل کی۔
حضرت مولانا کے حصول علم میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوئیں، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ حائل کی گئیں۔ اس لئے کہ گاؤں میں ایک کنبہ ایسا تھا (جس کے اکثر افراد مدرسہ کے ذمہ در تھے بلکہ اعلیٰ مناصب پر فائز و قابض تھے) جو گاؤں والوں پر نہ صرف اپنی اجارہ داری کا قائم کئے ہوئے تھا بلکہ اپنے آپ کو بے تاج بادشاہ سمجھتا تھا، ان کی منشاء یہ تھی کہ مقامی لوگوں کی اولاد زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہوسکیں ورنہ ان کی غلامی کرنے والے یکے بعد دیگرے ختم ہوتے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی چودھراہٹ بھی خطرہ میں پڑجائے گی، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ مشیتِ ایزدی سے حضرت اس گاؤں کے پہلے عالم ہوئے، اور حائلینِ حصولِ علم کی اچھی خبر لی، جس کا تذکرہ کسی مناسب موقع پر کیا جائے گا۔ چند سال بعد اس بستی میں بفضلہ تعالیٰ چند علماء حضرت کے ہی پڑھائے ہوئے تیار ہوگئے، اب حضرت مولانا کو بطور امتیاز 'بڑے مولانا' کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں
درس و تدریس: 1963ء میں گاؤں کے ہی مدرسہ مصباح العلوم میں بحیثیتِ مدرس آپ کا تقرر ہوااور چند ماہ کے بعد عہدۂ اہتمام بھی آپ کے ہی سپرد کردیا گیا۔ ابتداء میں دوسال تک حضرت نے بغیر معاوضہ و مشاہرہ کے ہی تعلیمی خدمت انجام دیا۔
آپ کے زیر تدریس درسِ نظامی کی جماعت اولیٰ سے رابعہ تک کی مختلف کتابیں تھیں۔ 1975ء تک آپ درس و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ نے بحیثیت مدرس تقرری کے بعد سب سے پہلے جو کارنامہ انجام دیا وہ دیگر مدرسین کے لئے ممکن نہ تھا،وہ یہ کہ مدرسہ کو مذکورۃ الصدر کنبہ کے تسلط و بے جا دخل اندازی سے آزاد کرایا۔ (دخل اندازی اور اس سے آزادی کی نوعیت پر بھی کسی خاص موقع پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔ ان شاء اللّٰہ)
حضرت کا اندازِ تدریس انتہائی سہل اور درس انتہائی پُرمغز ہوتا تھا۔ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی کو اکثر ممتحن کی حیثیت سے مدعو کیاجاتا تھا (امتحان کے بعد حسبِ روایت و ضابطہ تأثرات لکھتے تھے، جیسا اکثر ممتحنین و معائنہ کار حضرات لکھتے ہیں) حضرت مولانا لعل محمد قاسمی صاحب کے تدریس سے منسلک ہونے اورعہدۂ اہتمام سنبھالنے کے اوّلِ سال میں ہی حضرت مولانا شبیر احمد صاحب کو امتحان لینے کے لئے مدعو کیا گیا، حضرت نے مختلف کتابون کے تقریری امتحان کے ساتھ ساتھ فقہ کی کتابوں میں عملی امتحان لیا، مثلاً مریض و معذور کے نماز پڑھنے کے طریقے عملی انداز میں معلوم کئے، طلباء نے نماز کے عمومی طریقہ کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر، لیٹ کر اور سوکر نیز اشارہ کے ساتھ نماز پڑھ کر دکھایا، حضرتِ ممتحن بہت خوش ہوئے، پہلے رجسٹر میں اپنے تأثرات درج کئے، پھر باتوں باتوں میں برسبیلِ اظہارِ حقیقت فرمایا کہ پہلے کیا پڑھائی ہوتی تھی، پڑھائی تو اب ہورہی ہے۔
بہر کیف! حضرت کی تدریسی خدمات کا دورانیہ باوجود ے کہ بہت کم رہا ہے، مگر اس مدت میں حضرت نے جن طلباء کو پرھایا ان میں سے اکثر نے تعلیمی میعاد کو پورا کرکے اسنادِ عالمیت و فضیلت حاصل کی ہیں اور ملک و بیرون ملک دینی ، ملّی، تعلیمی و سماجی نیز دیگر میدان و شعبہ جات میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے موافق خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
حصولِ ہدف: حصول تعلیم کے زمانہ سے ہی حضرت مولانا کے مطمحِ نظر یہ ہدف تھا کہ ان اجارہ داروں پر قدغن لگاکر مدرسہ کو ان کے تسلط سے آزاد کرانا ہے، چنانچہ آپ نے اپنے متعین کردہ ہدف کو حاصل کر ہی لیا، جیساکہ سطورِ بالا میں مذکور ہوا۔
مقامِ غور: اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی کام، منصوبہ یا پروگرام خواہ مثبت ہو یا منفی، تعمیری ہو یا تخریبی (منفی و تخریبی کا ذکر اس لئے کیا تاکہ ملک و بیرون ملک فاشسٹ نظریات پر مشتمل تنظیموں کے منصوبوں اور متعینہ مدت میں حصولِ اہداف میں ان کی کامیابیاں سامان عبرت بن سکیں) انجام دینے سے قبل ہدف متعین و مقرر کرلینا چاہئے، اس سے منزل و مقصد کے حصول میں تقویت ملتی ہے۔
اسونجی بازار میں قیامِ جمعہ اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی سے مباحثہ:
پھر ان چودھریوں نے انتقام لینے کی کوشش میں مولانا کے ذریعہ اسونجی بازار میں قائم کرائے گئے نماز جمعہ کو ڈھال بنا کر اس گاؤں والوں کے پیر و مرشد، ولیٔ کامل حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ٹانڈوی سے ان کا مناظرہ (بلکہ مباحثہ) کرادیا اس کا بھی مفصل ذکر کسی خاص موقعہ پر کیا جائے گا، مگر (بموافق فرمانِ باری تعالیٰ: "ولا یحیق المکر السیء إلا بأھلہ" اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے) اس مرتبہ بھی ان کی تدبیریں دھری رہ گئیں اور خذالت و خسران سے دوچار ہونا پڑا۔
تجارت: 1975ء میں حضرت مولانا نے درس و تدریس کے سلسلہ کو خیرباد کہہ دیا (مگر 1985 تک شعبہ اہتمام آپ کے ہی سپرد تھا) اور کپڑے کی تجارت کا شغل اختیار فرمالیا۔ ابتداءً سکری گنج میں کرایہ پر ایک دوکان حاصل کی اور (Retail خردہ فروشی) پھٹکر کپڑے فروخت کرتے تھے، قسمت نے یاوری کی اور بہت جلد عمدہ و تھوک فروش (Wholesaler) کی حیثیت سے متعارف ہوگئے۔ مگر اس دوران بھی ایک موقعہ ایسا آیا کہ جزء وقتی و اعزازی طور پر آپ نے پڑھایا، ہوا یوں کہ آپ کے مدرسہ کو خیرباد کہنے کے بعد درس نظامی کی تعلیم یکایک موقوف ہوگئی اور یہ وقفہ 1980ء تک برقرار رہا، اور 1981ء میں مدرسہ کے ذمہ داران نے حضرت مولانا جلال الدین قاسمی صاحب (لچھمی پور بھرگاواں، موجودہ سکونت موضع پرتاول،ضلع مہراج گنج، غیر منقسم ضلع گورکھپور، جو کہ اس وقت قصبہ انول کے مدرسہ انجمن اسلامیہ میں مدرس تھے) کو بلایا اور پھر درس نظامی کی تعلیم شروع ہوئی، اساتذہ کے درمیان کتابیں تقسیم ہوئیں تو مولانا جلال الدین صاحب نے عربی اول سے 'مالابدمنہ' اور عربی چہارم سے 'شرح وقایہ' آپ کے ذمہ کردیا، تجارتی مصروفیت کے باوجود آپ نے انکار نہیں کیا، فجر کے بعد متصلاً طلباء گھر پر ہی پہونچ جاتے، کم و بیش چالیس منٹ پڑھاتے تھے۔ 1986 ء سے 2002ء تک یہ جزوقتی تدریسی سلسلہ پھر منقطع رہا۔
حضرت مولانا کی مشاورت بلکہ اصرار پر قاری محمد اسلام صاحب مفتاحی کی نگرانی میں 2003 ء میں اسونجی بازار سے متصل موضع کوئیں بازار میں ایک ادارہ "مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن امدادیہ" قائم ہوا اور درس نظامی کی ابتداء ہوئی تو پھرتعلیمی نسبت برقرار رکھنے کے لئے وہاں بھی حضرت فجر کے بعد کچھ کتابیں پڑھایا کرتے تھے۔ اس مدرسہ میں حضرت کے پڑھائے ہوئے طلباء الحمد للّٰہ فضیلت و عالمیت اورافتاء کی اسناد سے مستند ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک تو حضرت کے نبیرۂ عزیز (مولانا و مفتی محمد مونس صاحب) بھی ہیں۔
مزاج: آپ مزاجاً طنز و ظرافت اور مزاح پسند و خوش طبع واقع ہوئے ہیں، مگر بہت سے معاملات میں سخت گیر بھی ہیں بالخصوص مسلکی معاملہ میں تو فرقِ باطلہ کے تئیں تو بہت ہی سخت گیر موقف کے حامل ہیں۔
مدرسہ مصباح العلوم، اسونجی بازارکے اس وقت کے ایک بڑے ذمہ دار کا سکری گنج حلقہ کے جماعتِ اسلامی کے مشہور و متحرک داعی حکیم بشیر احمد صاحب سے یارانہ ہونے کے ناطے رجحان کسی حد تک جماعت اسلامی کی طرف ہوگیا تھا، انہوں نے مدرسہ کے لئے جماعت اسلامی کی نصابی کتابیں بھی منگالی تھیں مگر حضرت مولانا نے انتہائی برجستگی کے ساتھ اس نصاب کے نفاذ سے انکار کر دیا۔
حضرت مولانا منکرات و بے جا نقد و تبصرہ خواہ سماج و مذہب کے تعلق سے ہو یا ذاتیات سے بالکل ہی برداشت نہیں کرتے، پلٹ کر برجستہ (ترکی بہ ترکی) جواب دیتے ہیں۔
سلوک و مجاز: حضرت مولانا درس و تدریس سے منسلک ہونے کے وقت سے ہی اوراد و وظائف کے پابند تھے، روحانیت کی طرف بہت زیادہ میلان تھا، مگر مدرسہ کی ذمہ داریوں و مصروفیات کی وجہ سے کسی صاحبِ نسبت سے مربوط نہ ہوسکے۔ تدریسی سلسلہ کو خیرباد کہنے کے بعد مختلف علماء و مشائخ سے رابطہ کیامگر کسی سے بیعت پر آمادگی نہیں ہوئی، خوب سے خوب تر کی جستجو جاری رہی، بالآخر 2002ء میں آپ کی نظر دہلی میں مقیم ایک شخصیت، صاحبِ کشف بزرگ حضرت اقدس الحاج مولانا شاہ عبد اللطیف صاحب مظاہری اسعدی، خلیفہ و مجاز حضرت مولانا اسعد اللّٰہ صاحب مظاہری، ناظم مظاہر علوم، سہارنپور (مقیم مسجد تکیہ بِبّر شاہ، تلک برج، آئی-ٹی-او، نئی دہلی۔ سابق امام و خطیب لال مسجد، لال کنواں، دہلی 6) پر جاکر ٹِکی، چنانچہ ان سے ہی روحانی نسبت قائم کی اور بیعت ہوئے۔ اور حضرت شاہ صاحب نے وقفہ 5؍سال بعد 18؍ ذی قعدہ 1428ھ مطابق 29؍ نومبر 2007ء بروز جمعرات بیعت و ارشاد و تلقین کی اجازت و خلافت عطاء فرمائی۔
حضرت شاہ صاحب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا نے( 9، جون 2017ء لکھنؤ میں ) اصلاحی تعلق حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب سے قائم فرمایا، مگر راہ سلوک کے ضابطے کے مطابق مرشد سے تبادلۂ احوال ہوتے رہنا چاہئے، اور چونکہ حضرت مولانا کا مرشدِ گرامی سے رابطہ نہیں ہوپاتا تھا لہٰذا بیعت کو فسخ کردیا۔
اور پھر کسی ایسے مرشد کی تلاش میں مصروف ہوئے کہ جو قریب میں میں ہوں، جن سے اور رابطہ کرنا آسان ہو۔
اسی تلاش و جستجو کے دوران ایک اشارۂ غیبی ملا اور ماہ جنوری 2019ء میں آپ مشرقی یوپی کی نامی گرامی شخصیت حضرت مولانا عبدالقیوم شاکر الاسعدی (خلیفہ ومجاز حضرت مولانا اسعد اللّٰہ صاحب رامپوری رح سابق ناظم مظاہر علوم سھارنپور) ناظم اعلیٰ مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاہی ضلع بستی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے بیعت ہوئے۔
بالآخر حضرت مولانا عبد القیوم صاحب نے بھی11، محر الحرام 1442ھ مطابق 31، اگست 2020 بروز پیر بوقت ظہر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
نماز جنازہ مدرسہ اصلاح المسلمین جمدا شاہی میں 11، محرم الحرام بعد مغرب ادا کی گئی، اور بعد عشاء 9 بجے شب کو آپ کے آبائی گاؤں 'کرہی' میں ہزاروں عقیدت مند سوگواروں نے نماز جنازہ پڑھی پھر آپ کی جسد خاکی کو سپردخاک کیا گیا۔
تعمیرِ مسجد: بیعت ہونے کے بعد ضرورت تھی سلوک کے منازل کو طے کرنے کی نیز حصولِ جذب کی تکمیل اور علاج و ضبطِ نفس کی (تشریح: چشتیہ،نقشبندیہ،قادریہ اور سہروردیہ اکثر سلاسل میں سلوک پہلے طے کرایا جاتا ہے اور جذب سے تکمیل ہوتی ہے البتہ حضرت خواجہ نقشبند ؒ نے اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے جذب کو مقدم کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا، اس لئے نقشبندی سلسلے میں جذب پہلے ہوتا ہے اور سلوک بعد میں طے کرایا جاتا ہے۔سلوک سے مراد نفس کی بُری خصلتوں کا ایک ایک کرکے علاج کرنا ہے جبکہ جذب میں دنیا کی محبت، اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں بدل جاتی ہے اس لیے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ تاہم حصولِ جذب کے بعدنفس کا علاج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ دل بیدار توہوتا ہے اور اللّٰہ کو راضی کرنا چاہتا ہے لیکن نفس باغی ہوتا ہے اوردل کی نہیں مانتا، بلکہ اپنی ہی کئے جاتا ہے) تو ان سب مراحل کو طے کرنے کے لئے خلوت و یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اس کے لئے آپ نے اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر شمال کی جانب2006ء میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کروائی (14؍ رجب المرجب 1427ھ موافق ۹؍ اگست 2006ء بروز بدھ عصر کی نماز سے اس کا افتتاح ہوا) جو اب 'مسجدِ حراء' کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ اس میں عزلت و گوشہ نشینی کے لئے ایک حجرہ مختص کروایا، جو خانقاہ و لائیبریری کے طور پر بھی مستعمل ہے۔
زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد میں ہی مطالعۂ کتب اور ذکر و اذکار میں بسر ہوتا ہے، ہاںکچھ تقاضوں کی تکمیل کے لئے گھر پر بھی رہنا ناگزیر ہوتا ہے، مگر اس دوران بھی دل ماہیٔ بے آب کی طرح مضطرب ہوکرمسجد میں اٹکا رہتا ہے (جیسا کہ امام مالک بن دینارؒ کا قول ہے کہ "مؤمن مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں ہوتی ہے۔" کشف الخفاء للعجلونی)۔
البتہ اِدھر عید الفطر1441ھ کے بعد سے اضمحلالِ طبع، ضعف و نقاہت کے غلبہ کی وجہ سے مسجد میں وقت گذارنا تھوڑا دشوار ہورہاہے، پھر بھی فجر کی اذان سے اشراق تک اور عصر سے مغرب تک کا وقت مسجد میں ہی گذرتاو بسر ہوتا ہے، اس دوران عموماًکوئی نا کوئی حضرت کے پاس موجود ہوتا ہے، اہل اللّٰہ کی باتیں ہوتی ہیں جس سے دلوں کو تازگی و سرور محسوس ہوتا ہے، راقم السطور بھی عصر و مغرب کے درمیان حضرت کی خدمت میں حاضر رہ کر حضرت کی زبانی اکابرین و اساطینِ امّت کی باتیں سن کر دل کو فرحت و انبساط رسانی کا سامان مہیا کرتا ہے۔
خطابت:مسجد تعمیر کرانے کے بعد سے ہی اس میں نمازِ جمعہ کا قیام عمل میں آگیا، ہر جمعہ کو قبل از خطبہ حضرت کا مختصر سا وعظ ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی گاہ بگاہ حسبِ ضرورت اذان و نماز کے درمیانی وقفہ میں اصلاح اور ارشاد و ہدایت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔آپ کا اندازِ بیان انتہائی سادہ، عام فہم، آواز کرختگی اور نشیب وفراز نیز گھن گرج سے عاری ،بس یوں سمجھ لیا جائے کہ مذاکرانہ انداز ہوتا ہے۔ (جب کہ مدرّسی کے زمانہ میں آواز اتنی بلند کہ مدرسہ کی صحن میں ایک آواز لگاتے ہی طلباء پر سکتہ طاری ہوجاتا، ماحول بالکل پُرسکون ہوجاتاتھا) ۔ آپ کے مواعظِ حسنہ و فرمودات پر مشتمل ایک کتاب "مواعظِ گوہرِ امّت" کے نام سے شائع ہوچکی ہے، جس کی ضخامت 95؍ صفحات ہے۔ مدرسہ تعلیم القرآن امدادیہ کوئیں بازار کے سابق مدرس حضرت مولانا فضل الرحمٰن انظر قاسمی صاحب، ساکن برہڑاگنج، ضلع مہراج گنج نے 2018ء میں ترتیب دے کر فرید بکڈپو (پرائیویٹ لمیٹیڈ دہلی) سے شائع کرایا ہے۔
بایں ہمہ حالاتِ حاضرہ پر بھی حضرت کی خاص بلکہ پینی نظر رہتی ہے، وہ بہت سی سیاسی باتیں و خبریں، تازہ ترین وقوع پزیر حوادث جس سے اہلِ قریہ ناواقف ہوتے ہیں حضرت اس سے آگاہ رہتے ہیں، یکایک وضاحت فرماتے ہیں تب جاکر لوگ باخبر و مطّلع ہوتے ہیں۔
ذوق مطالعہ: حضرت انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل ہیں، مجھے تو یہ لکھنے میں بھی تأمل نہیں کہ گورکھپور کمشنری میں شاید ہی کوئی اتنا وسیع المطالعہ شخص موجود ہو۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کے شوقین ہیں، جب آپ نے تدریسی خدمات کی انجام دہی کو ترک کیا اور شغلِ تجارت اختیار فرمایا تب بھی آپ کی دکان پر مختلف موضوعات پر مشتمل متعدد کتابیں زیرِ مطالعہ رہتی تھیں۔ اور مسجد تعمیر کرانے کے بعد تو بیش بہا و گراں مایہ کتابوں کا ذخیرہ لگا ہوا ہے، جب آپ کے متعارف طلباء تعطیلات میں دیوبند یا کسی دوسرے مقامات سے گاؤں آتے ہیں تو سلام کے بعد سب سے پہلے ان سے یہی سوال ہوتا ہے کہ کوئی نئی کتاب لائے ہیں؟ کتاب خواہ کتنی مہنگی ہو اسے خریدنے میں تأمل نہیں فرماتے ہیں۔
ہو دُرِ گوشِ عروسِ صبح وہ گوہر ہے تو*
جس پہ سیمائے اُفق نازاں ہو وہ زیور ہے تو*
Comments
Post a Comment