دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
تحریر: ابوالحسنات قاسمی
دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
مقتدی وامام کے درمیان مکالمہ
مقتدی: حضرت میں نے بارہا (کتاب ﷲواحادیث کے حوالہ سے) سناہے کہ ﷲتعالیٰ بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتاہے، ان کی دعا ؤں کو قبول کرتاہے اور تمناؤں کو پوری کرتاہے۔
امام صاحب: آپ نے بالکل درست سناہے۔ ﷲ تعالیٰ اپنے ایک ایک بندہ سے اتنی محبت کرتاہے کہ ستر ماؤں کی محبت اس کےبالمقابل ہیچ ہے۔ اور یہی معاملہ ﷲ تعالیٰ کا تمام بندوں کے ساتھ ہے۔ نیز ﷲتعالیٰ بندوں کی دعاؤں و تمناؤں کو بھی موافقِ مصلحت قبول و پوری کرتاہے۔ حدیث شریف میں ہے "اِنّ ربّکم حیّ کریم یستحییٔ من عبدہ اذا رفع یدیہ اَن یّردّھما صِفراً " کہ تمھارا پروردگار بڑا حیادار و سخی ہے اسے (اس بات سے ) اپنے بندہ سے شرم آتی ہے کہ اس کے سامنے دستِ سوال (دستِ دعاء) بلند کرے اور وہ انہیں خالی لوٹادے۔ اور قرآن مجید میں ہے "اُدعونی استجب لکم" مجھ سے دعا ئیں مانگو میں قبول کروں گا۔ اور یہ یاد رکھیں کہ قرآن مجید میں یہ بھی ہے کہ "أم للاِ نسان ما تمنّیٰ" یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ انسان کی (بندے کی سب دعائیں) تمنّائیں پوری ہی ہوں۔
مقتدی: مگر سب کیا میری تو ایک بھی دعاء قبول نہیں ہوتی؟
امام صاحب: ؎
*جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو*
*درِ کریم سے بندے کو کیا نہیں مِلتا*
مقتدی: حضرت ایسا ہے کہ میں نے جو طریقہ علمائے کرام سے معلوم کیا ہے اسی طریقہ سے دعاء مانگتاہوں۔
امام صاحب: ذرا مجھے بھی بتائیے تو کہ وہ طریقہ کیا ہے؟
مقتدی: بعد از دریافتِ بسیار مجھے بتایاگیا کہ دعاء عبادت کا مغز ہے اس لئے عبادت (نماز) کے بعد دعاء مانگے (اجرت کرکے مزدوری طلب کرے) تو زیادہ قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس لئے میں اکثر نمازوں کے بعد دعائیں (گریہ و زاری کے ساتھ) کرتاہوں مگر لاحاصل۔
امام صاحب: آپ کی نماز تو ایسی نہیں ہے جیسی خدا تعالیٰ کو مطلوب ہے، اور دعائیں خدا تعالیٰ ہی قبول کرتے ہیں۔
مقتدی: کیا کبھی آپ نے میری نماز کا جائزہ لیا ہے؟
امام صاحب: ہاں جناب! میں نے آپ کی انفرادی نماز کا بہت غور سے جائزہ لیا ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ آپ (ظہرکے بعد) سنّت نماز ادا کررہے تھے۔ میں آپ کی داہنے جانب بیٹھا تھا اور آپ کی بائیں جانب شیطان آپ کو بہکانے میں مصروف تھا۔
میں نے دیکھا کہ آپ دورانِ قیام اپنے سامنے والے نمازی کی ٹی شرٹ پر لکھی ہوئی عبارت کی تلاوت اور اس کے
مفہوم کو سمجھنے میں منہمک تھے۔ اور جب وہ رکوع میں گیا تب آپ کی نظر بلا تکلّف اس کی کھلی ہوئی کمر پر تھی (اس لئےکہ شرٹ اوپر چڑھ گئی اور پینٹ نیچے کھسک گئی تھی) اور آپ نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اس دوران آپ کا داہنا ہاتھ بار بار (آپ کی فرینچی،غیر مشروع) داڑھی پر بھی جارہاتھا اور گاہ بگاہ ناک میں۔ اور جب آپ رکوع میں گئے تو آپ کی کمربھی کھُل گئی اور پیچھے معائنہ کار حضرات موجود تھے۔ اور آپ کی نظریں آپ کی موبائل پر تھیں جو آپ نے ڈسپلے اوپرکرکے سائلینٹ موڈ میں رکھاتھا اور رِنگ ہورہی تھی، آپ رسیو کرنے کے فراق میں تھے مگر مجبور تھے مگر اتنا تو آپ نے دیکھ ہی لیا کہ کس کی رنگ ہے۔ بہر حال جیسے تیسے آپ کی ایک رکعت مکمل ہوئی۔ دوسری رکعت میں سجدہ کی تسبیح رکوع کے بالمقابل کچھ زیادہ لگ رہی تھی، خدا ہی بہتر جانے آپ تسبیح ہی پڑھ رہے تھے یا سوگئے تھے یاکہ کچھ حساب ملانے میں مصروف تھے۔ اور جناب آپ کے قعدہ کا حال تو یہ تھا کہ اس میں بھی آپ کا داہنا ہاتھ داڑھی میں تھا اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ناک سے کچھ نکال کر اس کو ایسے مدَوّر (گول) کررہے تھے جیسے کوئی کہنہ مشق عطار، حکیمِ حاذق حبِّ یرقان یا حبِّ مالیخولیا تیار کررہا ہو۔ یقین جانئے اگر بابا رام دیو آپ کی نماز دیکھ لیتے تو عبادت تو درکنار اسے یوگا بھی شمار نہیں کرتے، اس لئے کہ یوگا میں بھی یکسوئی شرط ہے۔
تو بھئی جب آپ کی سنّت نماز کا یہ حال و اہتمام ہے تو فرض کا حال کیا ہوگا؟ ﷲ اعلم بالصواب۔
اور اس قدر اہتمام والی نماز مُنھ پر ماردی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب نماز نہیں تو قبولیتِ دعاء بھی نہیں۔ ؎
*میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا*
*ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں*
مقتدی: اجی جناب جی (امام صاحب) آخر پھر کس طرح نماز پڑھیں؟
امام صاحب: نمازمیں نبوی طریقہ اختیار کیجئے اس لئے کہ حضور ﷺ نے ایک صحابی رضی ﷲ عنہ سے ان کی عدمِ اطمینان والی نماز پر (جو کہ تعدیلِ ارکان سے خالی تھی ) تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا تھا "صلّوا کما رأیتمونی اُصلّی" کہ اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
پھر دیکھئے انشاء ﷲ ہاتھ اٹھاتے ہی بغیر زبان کو حرکت دیئے، صرف سوچتے ہی آپ کی دعائیں قبول ہوں گی اور تمنائیں بر آئیں گی۔
Comments
Post a Comment