اسلام دینِ فطرت

                               تحریر: ابوالحسنات قاسمی

                                اسلام اور قدرتِ الٰہیہ


اس وقت ملک میں جو افرا تفری کا ماحول ہے، حالات کشیدہ ہیں، ضعیف العقیدہ و ضعیف القلب (نام نہاد مسلمان) خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی ایسے واقعات یا ایسے حالات نہیں جوکہ پہلی بار رونما ہورہے ہیں۔ بلکہ ابتدائے آفرینشِ جہان سے آج تک اس طرح کے واقعات و حالات تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں۔ قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر مرحلہ وار موجود ہے، مگر چونکہ فی زمانہ قومِ مسلم کے بڑے طبقہ بلکہ کثیر تر افراد کا قرآن مجید سے ایسا رابطہ نہیں رہا جیسا کہ اس سے رابطہ کا حق تھا اس لئے وہ ان حالات سے ناواقف ہیں اور یہی ناواقفیت اصل سبب ہے پریشانی کا۔

دنیا اپنی ابتدائے وجود سے ہی شر و فساد، قتل و غارت گری اور خونریزی جیسے ہیبت ناک مناظر و ماحول کاسامنا و نظارہ کرتی چلی آئی ہے (یہ بات علیٰحدہ ہے کہ ہرایک منظر و واقعہ کی نوعیت جداگانہ رہی ہے)۔ جیسا کلام باری تعالیٰ "انی جاعل فی الأرض خلیفۃ" (البقرہ آیۃ نمبر ۲۰؍) سے ظاہر ہے۔ جس میں باری تعالیٰ نے فرشتوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ (میں روئے زمین پر ایک نائب بنانے والا ہوں)۔ تو فرشتوں نے عرض کیا "أتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء" (کیا آپ زمیں میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جوکہ اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟)۔

فرشتوں کا یہ اظہارِ خدشۂ شر وفساد و خونریزی اس لئے بجا تھا کہ (وجودِ بنی نوعِ انسان سے قبل) زمیں پرآباد (قومِ) جنات یہی کیا کرتے تھے۔

بہر حال بنی نوعِ انسان کی تخلیق کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فیصلہ (نیابت سازی) کو تکمیل بخشا۔ اور سلسلۂ بشریت، انسانیت و آدمیت کی ابتداء ہوئی۔ انسانِ اوّل ا بوالبشر حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے ایک (قابیل) نے اپنے حقیقی بھائی (ہابیل) کا ذاتی رنجش کے شاخسانہ (جس کے ذکر کی یہاں نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی موضوع سے متعلق) کی بنیادپرقتل کردیا جو کہ کلام باری تعالیٰ "فقتلہ فأصبح من الخاسرین" سے واضح ہے۔

بہر کیف! یہاں سے بنی آدم میں قتل و غارت گری اور خونریزی کی بیخ و بُن پڑگئی جو آج تک الگ الگ انداز و اسباب سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

شہرِ ثمود میں تخریب کاری و فساد کا ایک طویل سلسلہ چلا، اس شہر میں اہلِ باطل پر مشتمل نوگروہ ایسے تھے جوکہ اصلاحی کام کرنے والوں (اہلِ حق) کے خلاف سرگرم و برسر پیکار رہتے تھے: "وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الأرض ولا یصلحون" (اور شہر {شہرِ ثمود} میں نو جتھے دار تھے جو شہر میں فساد پھیلاتے) اور کوئی اصلاح کاکام نہ کرتے تھے۔ یہ نو شخص نوجماعتوں کے سردار تھے جن کا کام شہر میں فساد پھیلانے اور تخریب کاری کے سوا کچھ نہ تھا۔ اصلاح و درستی کی طرف ان کا ایک قدم بھی نہ اٹھتا تھا۔

اس آیت میں شہرِ ثمود کے ان سرکشوں کا ذکر ہے جوکہ حضرت صالح ؑ اور ان کے رفقاء سے برسرِ پیکار رہتے تھے۔


مکہ میں بھی اسی طرح کافروں کے نو سردار تھے جو ہمہ وقت اسلام کی بیخ کنی اور پیغمبر علیہ السلام سے دشمنی میں ساعی وکوشاں رہتے تھے۔


ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز *

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی*

جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے "یریدون لیطفؤا نور ﷲ بأفواھھم" (الصف آیت نمبر ۸؍) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نور یعنی دینِ اسلام کو اپنے منہ سے پھونک مارکر بجھادیں حالانکہ اللّٰہ اپنے نور کو کمال تک پہونچاکر رہے گا، گو کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں۔

"بأفواھھم" سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بشارات کے انکار و اِخفاء کے لئے جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں وہ کامیاب ہونے والی نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ اس دین (اسلام) کو تمام ادیان پر غالب کرکے رہے گا۔

اسی کو فرماتے ہیں:

چراغے را کہ ایزد برفروزد *

ہرآنکس پف زند ریشش بسوزد*

اگر گیتی سراسر باد گیرد *

چراغِ مقبلاں ہرگز نہ میرد*

(جس چراغ کو اللّٰہ تعالیٰ نے روشن کیا ہو اس کو گل کرنے کے لئے جو کوئی پھونک مارے گا اس کی داڑھی جل جائے گی۔ اگر ساری زمین میں آندھیاں آجائیں تو بھی اہل اللّٰہ کا چراغ گل نہیں ہوسکتا)۔

نورِ خدا ہے رحمت احمد پہ خندہ زن*

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا*

اور اسلام (جس کی مخالفت، جس کی بربادی و نابودی کے لئے پوری دنیا کی باطل و طاغوتی طاقتیں اپنی تمام تر توانائیوں اورناپاک و نامراد عزائم کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں) کی تو وہ شان ہے، فرماتے ہیں:

ہنوز آں ابرِ رحمت دُرفشاں است *

 خم و خم خانہ با مہر و نشاں است*

(آج بھی وہ ابرِ رحمت موتی برسا رہاہے ، خم اور خم خانہ سب سربمہر موجود ہے)

اسی کو اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں "وقد مکروا مکرھم وعند ﷲ مکرھم واِن کان مکرھم لتزول منہ الجبال" (سورۃ ابراہیم، آیات ٤٦؍ ٤٧؍)

انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل کر دیکھ لیں، مگر ان کی ہرچال کا توڑ اللّٰہ کے پاس تھا اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ ان سے ٹل جاتے۔ پس (اے نبی ﷺ) تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللّٰہ کبھی اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا، اللہ بہٹ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔

یعنی زمانۂ سابق میں بھی اہلِ باطل نے اہلِ حق کی تباہی و بربادی اور نیستی و نابودی کی خاطر بہتیرے داؤ کرکے دیکھ لئے مگر خدا کی حفاظت کے آگے سب ناکام رہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی مکاریاں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ٹلادیں؟ یعنی انبیاء علیہم السلام اور شرائعِ حقہ جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط و مستقیم ہوتے ہیں ان کی مکاریوں سے ڈگمگا جائیں؟ حاشا وکلّا۔

بعض مفسرین نے آیتِ مذکورہ میں "اِن" شرطیہ اور "واؤ" وصلیہ لے کر آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ: انھوں (اعدائے دین) نے بڑے بڑے داؤ چلے جو حفاظتِ الٰہی کے سامنے ہیچ ثابت ہوئے۔ اگرچہ ان کے داؤ فی حدِّ ذاتہ ایسے زبردست تھے جو ایک مرتبہ پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہلادیں۔

ان سازشوں کو دیکھ کر اسلام بزبانِ حال کہتا ہے:

قتلِ ایں خستہ بہ شمشیرِ تو تقدیر نبود * ورنہ ہیچ از دلِ بے رحمِ تو تقصیر نبود*

(اس بے چارہ کا قتل تیری تلوار سے مقدر ہی نہ تھا، ورنہ تیرے دلِ بے رحم نے تو کوئی کسر چھوڑی ہی نہ تھی)

بہر حال! مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ہر زمانہ میں مذاہب اور ان کے نمائندوں (پیغمبروں) و پیروکاروں کے خلاف ایک طبقہ مخالفت، عداوت و خصومت اور شر انگیزی پر آمادہ رہاہے، مگر تمام مذاہب و ادیان حقّہ (اپنے اپنے زمانے میں) بفضل ایزد تکمیل کو پہونچ کر رہے۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ چودہ صدیاں گذر گئیں (جن مذاہب کے پیروکار اس سے پہلے باہم، بایک دیگر دست و گریباں تھے اب متحد ہوکر) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنے، پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں پھر بھی "اسلام" اللّٰہ کی امان میں اپنی تمام تر توانائیوں اور شان و شوکت کے ساتھ (عالمی سطح پر) روز افزوں پھیلتا ہی جارہاہے۔ اگر اسلام اور مسلمانوں کو جزئی طور پر کچھ مضرت پہنچی بھی ہے تو وہ باطل(اغیار) کی تنہا کوششوں سے نہیں بلکہ اپنوں (میر جعفروں و میر صادقوں) کی سازشیں بھی اس میں کارفرما رہی ہیں۔

جعفر از بنگال و صدق از دکن ٭

 ننگ آدم، ننگ دین، ننگِ وطن*

یوں کہہ لیجئے کہ اسلام کو غیروں سے شکایت نہیں اس کو تو مسلمانوں سے ہی شکایت ہے:

من از بیگان گاں ہرگز نہ نالم ٭ 

کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد*

(میں غیروں کا شاکی نہیں کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ اپنوں نے ہی کیا ہے)

اس لئے مسلمانوں کو موجودہ حالات سے خوفزدہ و رنجیدہ ہونے کی بجائے اپنی اصلاح و محاسبہ کی فکر اور اجتماعیت و اتحاد کے مظاہرہ کی ضرورت ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ (عالَم و اقوامِ عالم بالخصوص عظیم بھارت میں آباد) اقلیتوں کے تحفظ وترقی اور ان کے مابین امن و سلامتی کی ضمانت بن سکتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

قومی ترانہ (راشٹریہ گان)

جادو برسرِ جادوگر

جلندھر ، جلودر ، اسباب و علاج